
جیسے ہی ہم 2025 میں داخل ہوئے ہیں، میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز اور آزمائشی دور پر غور کر رہا ہوں۔ اپنی قید تنہائی میں، میں ایک ایسے ملک کی افسوسناک حقیقت کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو آمرانہ طرزِ حکمرانی کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔ مگر ان تمام حالات کے باوجود، میں پاکستانی عوام کی ثابت قدمی اور ان کے انصاف کے لیے غیر متزلزل عزم پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔
مجھ پر لگائے گئے سیاسی الزامات دراصل مجھے جمہوریت کے لیے جدوجہد سے روکنے کی ایک کوشش ہیں۔ لیکن یہ جنگ صرف میری ذات تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا زوال دور رس نتائج کا حامل ہے۔ ایک غیر مستحکم پاکستان علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ، تجارتی رکاوٹ اور عالمی جمہوری اقدار کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا کو اس بحران کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے خطے کے استحکام کا سوال ہے۔
https://twitter.com/x/status/1895452141944287524
ایک ایسے ملک میں جہاں جمہوریت کا خاتمہ ہو رہا ہو اور جو علاقائی و عالمی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہو، وہاں جمہوری آوازوں کا دبایا جانا ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے لیے باعث تشویش ہونا چاہیے جو آزاد اور منصفانہ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔
گزشتہ سال میں سیاسی جبر کی انتہا دیکھی گئی۔ میری جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کے حامیوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ نے جبری حراستوں اور فوجی عدالتوں میں سیاسی مقدمات کا دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے۔ اب تک 103 پی ٹی آئی کارکنوں اور عہدیداروں کو ان عدالتوں میں سزا دی جا چکی ہے، جو کہ پاکستان کے عالمی انسانی حقوق کے معاہدوں، بشمول بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ سمیت عالمی برادری نے ان سیاسی مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس جبر کا سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانیوں کو ہو رہا ہے۔ اگر پاکستان نے جمہوری اقدار کی پامالی جاری رکھی تو اسے یورپی یونین میں اپنی ترجیحی تجارتی حیثیت (GSP+) سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے، جو ہماری معیشت، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے تباہ کن ہوگا۔ مگر اقتدار میں بیٹھے افراد اپنی انتقامی پالیسیوں سے باز نہیں آ رہے، بلکہ ہ میرے اور میرے ساتھیوں کے خلاف جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈہ کر کے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں۔
دنیا کو اس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو ملک کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کر کے اپوزیشن کو کچلنے پر مرکوز ہیں۔
ان اہم سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے بجائے، پاکستانی فوج کے وسائل سیاسی مخالفین، جیسے کہ پی ٹی آئی، کے خلاف انتقامی مہم پر لگا دیے گئے ہیں۔
عدلیہ، جو انصاف کی فراہمی میں ایک مضبوط ستون ہونی چاہیے، بدقسمتی سے سیاسی انتقام کا آلہ بن چکی ہے۔انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں پی ٹی آئی کے پرامن کارکنوں کو ایسے مقدمات میں پھنسا کر سزا دی جا رہی ہے جو سراسر بے بنیاد ہیں۔
ہزاروں گھروں پر چھاپے مارے گئے، خاندانوں کو ہراساں کیا گیا، حتیٰ کہ خواتین اور بچوں کو بھی اس جبر سے نہیں بخشا گیا۔ ہمارے سوشل میڈیا کارکن، بیرون ملک مقیم حامی اور عام لوگ جو ہماری حمایت کر رہے ہیں، ان کے خاندانوں کو دھمکایا اور اغوا کیا گیا تاکہ انہیں خاموش کرایا جا سکے۔ پی ٹی آئی نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ نومبر کے آخر میں اسلام آباد میں ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہمارے 12 کارکن قتل کیے گئے۔
اگرچہ مجھے موجودہ حکومت پر شدید تحفظات ہیں، بشمول انتخابات میں دھاندلی کے الزامات جن کے تحت یہ حکومت برسرِ اقتدار آئی، میں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دی تاکہ مزید تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔
ہمارا مطالبہ واضح تھا: ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور نہتے مظاہرین پر کیے گئے حملوں کی آزادانہ تحقیقات کرے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔
لیکن اس کے بدلے میں مجھے گھر میں نظر بندی کی پیشکش کی گئی اور ساتھ میں پی ٹی آئی کو مبہم انداز میں "سیاسی جگہ" دینے کی بات کی گئی، جسے میں نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
پارلیمنٹ کو آمرانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے کیلئے ربڑ سٹیمپ بنا دیا گیا ہے ۔ عدلیہ کی آزادی ختم کرنے، آزادیِ اظہار کو دبانے اور اختلافِ رائے کو جرم قرار دینے جیسے قوانین بغیر کسی بحث کے منظور کرائے جا رہے ہیں۔ اور سیاسی اختلاف کو "ریاست دشمنی" قرار دے کر سخت سزائیں دی جا رہی ہیں، جبری گمشدگیاں اور سخت انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمات بن چکے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی آخری نشانیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر فوج کے آئینی دائرہ کار کو تسلیم کریں اور اس کی حدود کا احترام کریں۔ صرف اسی صورت میں پاکستان حقیقی جمہوری نظام کے تحت ترقی کر سکتا ہے—ایسا نظام جو عوام کے ذریعے، عوام کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں آمریتیں عارضی ہوتی ہیں، مگر وہ جو تباہی پھیلاتی ہیں، اس کے اثرات نسلوں تک باقی رہتے ہیں۔ ہماری قوم کا مستقبل جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے، نہ کہ اس کے خاتمے سے۔
موجودہ تاریک حالات کے باوجود، پاکستانی عوام پہلے سے کہیں زیادہ باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ جھوٹ کو پہچان چکے ہیں، اور ان کی بیداری مجھے امید دیتی ہے۔ انصاف اور عزت کے لیے لڑنا آسان نہیں، مگر یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جو ہر حال میں جاری رہنی چاہیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سچ کی فتح ہوگی، اور ہم مل کر ایک ایسا پاکستان تعمیر کریں گے جہاں شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور جمہوریت بحال ہو۔
دنیا اس وقت ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے۔ عالمی مسائل جیسے جنگیں، اقتصادی عدم استحکام اور دیگر چیلنجز بڑھ رہے ہیں، اور اس وقت دنیا کو ایماندار اور اصولی قیادت کی ضرورت ہے
اسی تناظر میں، میں صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کو جنوری میں ان کی تاریخی حلف برداری پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی شاندار سیاسی واپسی ثابت کرتی ہے کہ عوامی خواہش کو دبایا نہیں جا سکتا۔
ان کی پہلی مدت میں، امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی احترام پر مبنی مضبوط تعلقات قائم رہے۔ اب جب کہ وہ دوبارہ منصب سنبھال رہے ہیں، ہم ان کی انتظامیہ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جمہوری اصولوں، انسانی حقوق، اور قانون کی حکمرانی کے عزم کو مزید مستحکم کریں گے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں آمریت جمہوری اقدار کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ایک جمہوری اور مستحکم پاکستان بین الاقوامی کمیونٹی کے مفاد میں ہے، اور ہم اس توازن کو بحال کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
اس کے علاوہ، میں ان کی انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط کریں تاکہ پاکستان جیسے ممالک اپنے آپ کو خود مختار معیشتیں بنا سکیں۔ منصفانہ تجارتی پالیسیز، اہم شعبوں میں سرمایہ کاری، اور علاقائی استحکام کی حمایت سے خوشحالی آئے گی اور ان حالات کو روکا جائے گا جو تنازعات اور انتہاپسندی کو جنم دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ امریکہ کی قیادت کا یہ نیا دور ان اہم شعبوں میں حقیقی تعاون لائے گا اور امن و ترقی کے قیام میں مددگار ثابت ہوگا۔
جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں، میں اپنے پاکستان کے وژن پر پُرعزم ہوں — ایک ایسا ملک جو انصاف، مواقع اور برابری پر مبنی ہو۔ آگے کا راستہ مشکل ہوگا، لیکن مجھے شک نہیں کہ پاکستانی عوام اپنی عزم و ہمت کے ساتھ ان چیلنجز کا مقابلہ کریں گے۔ ہم سب مل کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مستقبل تعمیر کریں گے۔
https://twitter.com/x/status/1895469494681944490 https://twitter.com/x/status/1895768117630165185
Last edited by a moderator: