
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بجلی کی سبسڈی، پاک-ایران بارڈر پر تجارتی مسائل، اور دیگر اہم معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ اجلاس کے دوران سینیٹرز نے وزارت خزانہ کے حکام سے سوالات کیے اور ملک کے اقتصادی مسائل پر سخت تنقید کی۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے اجلاس میں کہا کہ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ بیرونی ممالک کے لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اپنے گھر کو کیسے سنبھالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھا رہا ہے، جو کہ ہمارے نظام میں موجود خامیوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔
وزارت خزانہ کے حکام نے بجلی کی سبسڈی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سبسڈی کو صرف بی آئی ایس پی کے مستحقین تک محدود کرنے کی تجویز پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں وزارت خزانہ، پاور ڈویژن، اور متعلقہ کمپنیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔ تاہم، سینیٹر انوشے رحمان نے کہا کہ بجلی پر کسی قسم کی سبسڈی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے پورا ملک بھکاری بننے پر مجبور ہو رہا ہے۔
**پاک-ایران بارڈر پر تجارتی بحران:**
اجلاس میں پاک-ایران بارڈر پر 600 ٹرکوں کے روکے جانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ایرانی سفارتکاروں نے بتایا کہ پاکستان نے ایرانی ٹرکوں پر بینک گارنٹی کی شرط عائد کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے روزانہ 2.2 ملین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایرانی سفارتکار نے کہا کہ 6 ماہ قبل تک 600 ٹرک روزانہ بارڈر پر آتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر 400 ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان 1987 کے معاہدے کے تحت بینک گارنٹی کی شرط تھی، لیکن 2008 کے معاہدے میں اس شرط کو ختم کر دیا گیا تھا۔
سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ ایرانی سفارتکاروں کی بریفنگ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں ہر کوئی صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس معاملے کو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔
**بارٹر ٹریڈ معاہدہ بند:**
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر ٹریڈ معاہدہ کسٹمز کے پیچیدہ قوانین کی وجہ سے بند ہو چکا ہے۔ کسٹمز حکام نے بتایا کہ بارٹر ٹریڈ کے لیے بینک گارنٹی کی شرط نہیں ہے، لیکن دو طرفہ تجارت کے لیے یہ شرط عائد کی گئی ہے۔
**کمیٹی کا فیصلہ:**
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت میں درپیش مسائل کے حل کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ کمیٹی کا ڈرامہ بند کیا جائے اور ان قابل افراد کو طلب کیا جائے جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزرا کی کرسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں، اور یہ صورتحال ملک کے لیے خطرناک ہے۔
اجلاس کے اختتام پر سینیٹرز نے زور دیا کہ پاکستان کو اپنے اقتصادی اور تجارتی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بیرونی ممالک کے سامنے ہماری شرمندگی بڑھتی رہے گی۔
Last edited: