
پاکستان کے سابق کرکٹر راشد لطیف نے 1990 میں کرکٹ ٹیم میں ہونے والی بغاوت اور میچ فکسنگ کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں، جس سے کرکٹ کی دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران کچھ کھلاڑی زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ میچز میں غیر تسلی بخش پرفارمنس دے رہے تھے اور ان کے ڈراپ ہونے کا امکان تھا، جس پر ٹیم میں تنازعہ پیدا ہوا تھا۔
جیو پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے راشد لطیف نے بتایا کہ 1990 میں زمبابوے کے خلاف میچز کے دوران بعض کھلاڑیوں کی پرفارمنس غیر تسلی بخش تھی اور ان کے ڈراپ ہونے کا امکان تھا۔ اس پر عاقب جاوید اور جاوید میانداد جیسے بڑے کھلاڑیوں کو ڈراپ کر دیا گیا، اور عاقب جاوید، وقار یونس اور مشتاق احمد کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے تھے۔
راشد لطیف نے بتایا کہ اس وقت انہیں اسلام آباد سے بلا کر بتایا گیا کہ کپتان کے خلاف ایک بغاوت کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو کمرے میں وہ کھلاڑی بھی موجود تھے جو اس وقت ٹیم کا حصہ نہیں تھے، اور راشد لطیف نے فوراً سمجھ لیا کہ کچھ غلط ہونے جا رہا ہے۔ "کمرے میں بڑے کھلاڑی موجود تھے اور مجھے پتا چل گیا کہ یہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے،" انہوں نے کہا۔
کپتان کی تبدیلی اور سلیم ملک کا عروج
راشد لطیف نے مزید بتایا کہ اس بغاوت کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے وقار یونس کو کپتان بنانے کا سوچا تھا، لیکن بالآخر بورڈ نے سلیم ملک کو کپتان منتخب کیا، جو بعد میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کامیاب ترین کپتانوں میں سے ایک ثابت ہوئے۔
میچ فکسنگ اور طاقتور کھلاڑیوں کا بچنا
راشد لطیف نے پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کے حوالے سے بھی اہم گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان میں طاقتور کھلاڑیوں کو سزا نہیں ملتی، تو وہ معاشرتی سطح پر بھی پھیل جاتے ہیں۔ "یہ کھلاڑی اپنے سیاسی روابط کے ذریعے بچ جاتے ہیں،" انہوں نے کہا، اور ان طاقتور کھلاڑیوں کو حکومتی سرپرستی ملتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جسٹس قیوم نے 2010 میں اپنی انکوائری رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر اس رپورٹ پر انکوائری کی جاتی تو میچ فکسنگ کے معاملات نہ ہوتے۔ "پاکستان میں پسند ناپسند کا کلچر ہے، کھلاڑیوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں، جس سے وہ بچ جاتے ہیں۔" جسٹس قیوم نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ ان کھلاڑیوں کو دوبارہ بورڈ میں نہ لایا جائے، لیکن بدقسمتی سے ان ہی کھلاڑیوں کو دوبارہ کپتان بنا دیا جاتا ہے۔
راشد لطیف کا کہنا تھا کہ "پاکستانی کرکٹرز وہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتے جو ماضی میں ہوا،" اور اس بات کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کی بدقسمتی یہی ہے کہ طاقتور کھلاڑیوں کو کسی بھی نوع کی سزا نہیں دی جاتی، جس کے نتیجے میں میچ فکسنگ اور دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
راشد لطیف نے انکشافات کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ میں احتساب کے فقدان کی نشاندہی کی اور اس بات کا عہد کیا کہ وہ کرکٹ کی بہتری کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔