رانگ ٹرن،جاوید چوہدری

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔

یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔

دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔
لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔

مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔

خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔

کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔

جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔

سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟

ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔
 

farrukh77

MPA (400+ posts)
رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔

یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔

دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔
لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔

مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔

خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔

کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔

جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔

سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟

ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔
 

farrukh77

MPA (400+ posts)
landay ka danish war sirate mustaqeem kisi ki zzti zindagi pe beth kar johta pord cast karna sirat e mustaqeem hai batil k a ge sir kham tsleem hu jana sirat e mustaqeem hai ab a jate hai zid wali bat pe usman ghazi tan tanha tamama tukrko ki mukhalfat k bawajood zid pe ara rehta tha sir nahi juhkata tha batil k a ge or team bhi bari thi akhir ek din batil mita haq ghalib aya or ek saltanat bna betha or ye mulk isablishment k bina bht bht bht acha chal sakta hai agar aain pe amal daramad hu her idara appni aiini hadood me kaam kary kabhi poori trha civelion hukumat ko aiini haq k sath poori trha kaam karne dy us k bad dekhy k ye mulk kaha jata hai lakin tum jaise sheedy makham polishi jub tak mujood hu ye kaam mushkil hai or haa hakeem shb awam ko ab bewaqoof sahmajna chuhar dy awam an door e imran me jee rahi hai sub janti hai kia sahi kia ghlat mashwara appne aqawo ko dy k pehchy hat jai
 

ahameed

Chief Minister (5k+ posts)
رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں
میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔

یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔

دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔
لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔

مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔

خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔

کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔

جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔

سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟

ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔

2014
میں نوازشریف نے لوڈشیڈنگ ختم کردی تھی، اوہ یھدی دیا حرام زاد یا آج پاکستان کی معیشت اسی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی قیمت ادا کررہی ہے، انڈسٹری مہنگی بجلی سے تباہ ہوگئی اور بجٹ کیپیسیٹی پیمنٹ دینے کی وجہ سے تباہ

حرام زادے کو اتنی سادہ سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟؟؟
 

Azpir

Senator (1k+ posts)
رانگ ٹرن کی کہانی بہت سادی ہے‘ دنیا میں ہمارے دائیں بائیں موت کی بے شمار وادیاں ہیں جن میں ایک سے بڑھ کر ایک خوف ناک عذاب انسانوں کا انتظار کر رہا ہے‘ ہم زندگی میں معمول کا سفر کرتے کرتے ایک رانگ ٹرن لیتے ہیں اور پھر موت کی ان وادیوں میں جا گرتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

اس فلم کے کرداروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے‘ یہ رانگ ٹرن لیتے ہیں اور اس کے بعد عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ میں نے 2005 میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تھی اور یہ سبق سیکھا تھا زندگی گزارنے کا شان دار طریقہ صراط مستقیم ہے اور انسان کو کوشش کرنی چاہیے یہ کسی قیمت پر اس راستے سے نہ ہٹے کیوں کہ کوئی ایک رانگ ٹرن اسے کسی ایسے مقام پر لے جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔

ہماری قومی زندگی میں بھی 2014میں ایک رانگ ٹرن آیا تھا اور یہ رانگ ٹرن ملک کو ایک ایسی دلدل میں لے آیا جس سے نکلتے نکلتے ہم مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ ریاست ایک قدم اٹھاتی ہے اور اس کے بعد بڑے فخر سے دعویٰ کرتی ہے ہم اور ملک بحران سے نکل آئے ہیں لیکن اگلے دن معلوم ہوتا ہے وہ قدم ہمیں منزل سے مزید کئی کلومیٹر دور لے جا چکا ہے۔

ہمیں آج ماننا ہوگا 2014ہماری قومی زندگی کا منحوس ترین سال تھا‘ اس کی نحوست دس سال گزرنے کے بعد بھی آج تک قائم ہے اور سردست اس کے ٹلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے اور اس کا سب سے بڑا وکٹم پاکستان ہے‘ یہ ملک روز بروز ڈوبتا چلا جا رہا ہے‘ میں عمران خان کا فین تھا اور میں آج بھی اس کا فین ہوں‘ اس شخص نے جیل کاٹ کر سب کے دعوؤں پر پانی پھیر دیا۔

یہ بیانیہ بنانے کا بھی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ماہر ہے‘ یہ ون مین آرمی بھی ہے‘ یہ اکیلا پوری پارٹی ہے اور لوگ اس سے بے تحاشا محبت بھی کرتے ہیں‘ ہمیں اس کی یہ خوبیاں بہرحال ماننا ہوں گی لیکن اس کی دو خامیوں نے اس اور ملک دونوں کا جنازہ نکال دیا اور وہ دو خامیاں ہیں بے تحاشا ضد اور انتہائی بری ٹیم۔

یہ وہ دو خامیاں ہیں جنھوں نے بانی کے ساتھ ساتھ ملک کا انجر پنجر بھی ہلا دیا‘ آپ خان کی ضد کا کمال دیکھیے‘ یہ اس ریاست کے ساتھ لڑ رہاہے جو اگر یہ جنگ ہار جاتی ہے تو پھر یہ اس قابل نہیں رہے گی جس پر عمران خان حکومت کر سکے‘ یہ ملک اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اگر یہ ختم ہو گئی تو پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا لیکن خان اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر رہا۔

دوسرا آپ دنیا جہاں کے شان دار لوگ اس کے سامنے کھڑے کر دیں لیکن یہ ان سب کو چیر کر سیدھا کسی عثمان بزدار یا محمود خان پر گرے گا اور پھر اپنی ساری توانائیاں اسے وسیم اکرم پلس بنانے میں صرف کر دے گا۔
لیکن جس طرح خواجہ سرا صاحب اولاد نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح عثمان بزدار آخر میں عثمان بزدار اور محمود خان محمود خان ہی رہتے ہیں مگر آج ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا یہ دونوں خامیاں ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہیں یعنی انتہائی ضد اور بری ٹیم کی سلیکشن۔

مثلاً میاں نواز شریف 2014 میں ٹھیک کام کر رہے تھے‘ حکومت نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا شروع کر دیا تھا اور سی پیک کے ذریعے معاشی ری وائیول بھی ہو رہا تھا لیکن چند لوگوں کی ضد آڑے آئی اور انھوں نے چلتے ہوئے ملک کو ’’رانگ ٹرن‘‘ کی طرف دھکیل دیااور خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا‘ ان کا دعویٰ تھا دس لاکھ لوگ لاہور سے نکلیں گے جن میں لاکھ موٹر سائیکل ہوں گے لیکن یہ دعویٰ بری طرح ناکام ہوا‘ اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے باوجود لاہور سے دس ہزار لوگ بھی نہیں نکلے اور وہ بھی گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے تحلیل ہو گئے۔

اسٹیبلشمنٹ اگر اس وقت خان صاحب کی مینجمنٹ سکل اور ٹیم میکنگ کی صلاحیت کا اندازہ کر لیتی تو آج شاید صورت حال مختلف ہوتی لیکن جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی چیزیں بھی دکھائی نہیں دیتیں لہٰذا ہمارے بھائی لوگ اسے خان کی ناتجربہ کاری اور سادگی سمجھ بیٹھے۔

خان نے بعدازاں اسلام آباد میں 126 دن دھرنا دیا‘ اس دھرنے کے کھانے تک کا بندوبست جنرل ظہیر الاسلام کرتے تھے‘ دھرنے کے لیے بجلی کا انتظام بھی آبپارہ سے ہوتا تھا‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت بھی اندازہ نہیں ہوا جو شخص یہ چھوٹا سا ٹاسک پورا نہیں کر سکتا وہ کل اگر وزیراعظم بن گیا تو اس کے کپڑے تک ہمیں ڈرائی کلین کرنا پڑیں گے‘ ہم پہلے اسے کرسی پر بٹھائیں گے پھر اس کرسی کی حفاظت کریں گے پھر حکومت چلائیں گے اور آخر میں اس سے بے عزتی بھی کرائیں گے چناں چہ اسٹیبلشمنٹ کی خان کو وزیراعظم بنانے کی ضد نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔

پنجابی کا بڑا شان دار محاورہ ہے‘ نانی کی شادی کرائی برا کیا اور شادی کے بعد نانی کی طلاق کرا دی یہ اس سے بھی برا کیا‘ خان کو زبردستی وزیراعظم بنوانے کی کوشش نانی کا نکاح تھا‘ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘ اسٹیبلشمنٹ خان کو ابھی میچور ہونے دیتی‘ یہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہتا اور 2018میں نہ سہی تو 2024 میں وزیراعظم بن جاتا‘ اس دوران یہ کم از کم تجربہ کار تو ہو جاتا۔

کے پی میں اس کی حکومت بھی اسے بہت کچھ سمجھا دیتی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جلد بازی اور ضد ’’رانگ ٹرن‘‘ ثابت ہوئی ‘ چلیں اگر ہم نے یہ رانگ ٹرن لے لیا تھا تو پھر ہم نانی کی طلاق تو نہ کراتے‘ خان 2022 میں غیرمقبول ہو چکا تھا اور اس کی حکومت اپنے بوجھ تلے دب رہی تھی‘ آپ نے جنرل فیض حمید کا سہارا کھینچ لیا تھا‘ یہ کافی تھا‘ خان کی حکومت اس کے بعد چند ماہ کا کھیل تھی‘ آپ یہ ہونے دیتے۔

لیکن اس وقت دوبارہ ضد کا مظاہرہ ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی طور پر مردہ خان دیو بنتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ آج کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نانی کے نکاح کے بعد کی صورت حال نکاح سے پہلے کی صورت حال سے زیادہ افسوس ناک ثابت ہوئی‘ ریاست اب ایک سوراخ بند کرتی ہے تو پہلے سے بڑا سوراخ پیدا ہو جاتا ہے اور جب اسے بند کر دیا جاتا ہے تو چند فٹ کے فاصلے پر اس سے بھی بڑا سوراخ ہو جاتا ہے۔

آپ عدلیہ کے تازہ ترین ایشو کو لے لیجیے‘حکومت اور ریاست نے مل کر بڑی مشکل سے دن رات ایک کر کے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرائی‘ اس کا مقصد سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا اور جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا‘ یہ سوراخ بند ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ مزید آؤٹ آف کنٹرول ہو گئی چناں چہ حکومت نے پہلے دو ایڈہاک ججز تعینات کر دیے جس کے بعد ججز کی تعداد دس ہو گئی۔

حکومت کا خیال تھا ہائی کورٹ میں اب بیلنس آ جائے گا لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی چناں چہ پھر حکومت تین ہائی کورٹس سے تین ججز اسلام آباد لانے پر مجبور ہو گئی‘ جسٹس سرفراز ڈوگر کو لاہور‘ جسٹس خادم حسین سومرو کو سندھ اور جسٹس محمد آصف کو بلوچستان ہائی کورٹ سے لایا گیا‘ یہ تینوں ججز اسلام آباد آ چکے ہیں اور انھوں نے ہائی کورٹ میں کام بھی شروع کر دیا ہے۔

دوسری طرف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اور ان ججوں کی عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ آپ دیکھ لیں ایک بحران ٹالنے کے لیے ریاست کو کتنے نئے بحرانوں سے گزرنا پڑ رہا ہے‘ عدلیہ کی فارمیشن میں یہ تبدیلی ملک میں انصاف کا مزید جنازہ نکال دے گی‘ 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملاًختم ہو چکی ہے‘ اس کا احترام اور وقار دونوں مٹی میں مل چکے ہیں اور اس میں ججز کا قصور بھی ہے۔

جج صاحبان جب اپنے منصب سے اتر کر کسی سیاسی جماعت کے معاون بن جائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا تھا اور وہ نکلا لیکن رہی سہی کسر حکومت اور ریاست نے بھی پوری کر دی‘اس نے دو گھونسلے توڑنے کے لیے پورے محل کو آگ لگا دی۔

سپریم کورٹ کے بعد اب ہائی کورٹس کی باری ہے‘ ان میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں عین ممکن ہے ہم ان کے ذریعے بانی کو مزید دو چار سال جیل میں رکھ لیں‘ ہو سکتا ہے ہم اس مصنوعی سسٹم کو بھی مزید چند برس دھکا دے لیں لیکن اس عمل کے دوران ملک کا عدل کا نظام کہاں کھڑا ہو گا؟ آج وہ ججز جو کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں کل جب انھیں کوئی اشارہ کرے گا تو یہ کیا کیا نہیں کریں گے؟

ہمیں ماننا ہو گا ہم نے ایک اور رانگ ٹرن لے لیا ہے اور یہ رانگ ٹرن ہمیں اس وادی میں لے جائے گا جہاں بے انصافی اور ظلم کے ’’ذومبیز‘‘ دندناتے پھر رہے ہیں اوریہ ہماری طرف دیکھ کر بار بار پوچھ رہے ہیں اگر کل تم لوگوں کو انصاف کی ضرورت پڑ گئی تو تم کس عدالت میں جاؤ گے اور کس جج سے اپنا حق مانگو گے؟

آپ ذرا تصور کیجیے کل اگر صدر زرداری اور میاں شہباز شریف کو انصاف چاہیے ہو گا تو کیا یہ عدالتیں اور یہ جج انھیں انصاف دے سکیں گی اور اگر انصاف کی ضرورت کسی جنرل کو پڑ گئی تو کیا ہوگا؟ وہی ہو گا جو اس وقت قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہر رانگ ٹرن کا نتیجہ بہرحال یہی نکلتا ہے۔
In jese journalists ki rotiyan sirf Imran Khan k naam se chalti han. Changar sala Banchod.
 

Aliimran1

Prime Minister (20k+ posts)

Jeda —- Corrupt honay kay sath aik intihai Chutiya bhi hai ——​

Bharway —-​

1-Why you think that Ghaleez Buzdil Military has part to play in politics​

2- 1948 , 1965 , 1971 , —- And then in Kargil wars they were unable to defend ( What good are they for the country)​

3- They are supposed to be fighting for the country and his people —- But they are fighting and killing the peoples.​

4- They should be on Borders and in Cantonments But they are doing Businesses and enjoying themselves—— And many more questions​

5- REASONS and justification for 1958 1970 1977 1977 1999 Martial Laws by these Beghairat Buzdil​

Under the circumstances —- How could you describe their loyalties for the country and —- How could you describe their involvements in politics?​

 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
A self proclaimed reformer.
Jiski apni aulad uskay kahay sunamay main nahi.
لیکن سر جی اسکا بھائی اسکے بہت کہنے میں ہے۔ یہ اپنے بھائی کی کمپنی کو جو بھی ٹھیکے لے کر دیتا ہے، اسمیں سے وہ اسکا حصّہ ٹھیک ٹائم اور نہایت ایمانداری سے اسکو پہنچاتا ہے۔
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
او بھڑوے جیدے چنگڑ

سب سے بڑا رانگ ٹرن تیرے باپ نے لیا تھا جب تیرا باپ سونے کے بجائے تیری ماں کے کمرے میں چلا گیا اور تجھ جیسا کمین خصلت حیوان اِس دنیا میں آیا

مادر چود میاں حرامی پہلے بھی الیکشن میں دھاندلی سے آیا تھا اور اب دھاندلے سے آکر اپنی رنڈی بیٹی کو سی ایم بنوا دیا

اور وہ جوکرِ اعلی پی ایم بن گیا

بھڑوے جب ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی ہی حکومت تھی تو اسے ہی گالیاں دے نا۔۔

پورے پاکستان سے صرف عمران خان کو ووٹ ملے ہیں اور اُسے ہی حکومت کا حق ہے
 

exitonce

Prime Minister (20k+ posts)
il_fullxfull.2977161888_fdxa.jpg
 

Back
Top