رفتار کے دفتر پر ایف آئی اے کا چھاپہ، کمپیوٹر اور دستاویزات ضبط

image.png

کراچی: آج سہ پہر 3 بجے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں نے معروف صحافی فرحان ملک کے دفتر، رفتار، پر اچانک چھاپہ مارا اور ان کا ورک کمپیوٹر اور دفتر میں موجود تمام یو ایس بی ڈرائیوز ضبط کر لیں۔ دفتر کے عملے کو کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کی گئی، جبکہ چھاپے کے دوران انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔


https://twitter.com/x/status/1904123775840350385
دفتر انتظامیہ اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض ایک معمول کی تفتیش نہیں بلکہ آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے فرحان ملک کو حراست میں لیا گیا اور اب ان کے کام کے بنیادی وسائل اور محفوظ شدہ ریکارڈ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کے اخراج کی درخواست، فریقین کو نوٹس جاری


دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے ملک مخالف ویڈیوز بنانے کے الزام میں درج مقدمے کو خارج کرنے کی فرحان ملک کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے درخواست کی سماعت عید کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔

درخواست گزار کے وکیل، معیز جعفری ایڈووکیٹ، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف درج ایف آئی آر غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ مقدمہ ایک آزاد صحافی کو ہراساں کرنے کی کوشش ہے، اور ان کی قانونی ٹیم نے اس کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی، جو تاحال نہیں ملا۔

معیز جعفری نے مزید کہا کہ جب یہ انکوائری شروع ہوئی تھی، تب پیکا ترمیمی ایکٹ موجود نہیں تھا، اور اگر اس نوعیت کے مقدمات کو اجازت دی گئی تو شہریوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جہاں کسی بھی سرکاری افسر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ عناد کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا سکے۔

درخواست میں سندھ حکومت، ایس ایس پی ایسٹ، ڈائریکٹر ایف آئی اے، اور دیگر متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔

صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آزادی صحافت کو دبانے کے بجائے اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب، رفتا‌ر کے دفتر کے ملازمین اور صحافی برادری کا کہنا ہے کہ وہ اس دباؤ کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے اور آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔
 

Back
Top