لاہور کے سات سرکاری ہسپتالوں سے کروڑوں روپے مالیت کی ادویات چوری کرنے والا گروہ پولیس کی کارروائی میں گرفتار ہو گیا ہے۔
ملزمان کے قبضے سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں دل کے مریضوں کو لگنے والا مہنگا انجکشن ہیپارین اور چلڈرن ہسپتال لاہور میں گردوں کی پیوندکاری کے لیے استعمال ہونے والی قیمتی ادویات بھی برآمد ہوئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق، حفصہ نامی ایک لڑکی نے ایم ایس پینز کو درخواست دی کہ آصف نامی شخص نے سی ٹی سکین کے لیے 7,500 روپے وصول کیے ہیں، جبکہ اصل فیس صرف 4,000 روپے ہے۔ اس معاملے پر ایم ایس پینز ڈاکٹر عمر اسحاق اور لاہور جنرل ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین نے لاہور جنرل ہسپتال کی پولیس چوکی کو درخواست ریفر کر دی۔
پولیس چوکی انچارج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین ملزمان کو ان کے اڈے سے گرفتار کر لیا، جو جنرل ہسپتال کے پیچھے واقع آبادی میں موجود تھا۔ وہاں سے بڑی مقدار میں لاہور کے سات بڑے سرکاری ہسپتالوں کی چوری شدہ ادویات کا سٹاک بھی برآمد ہوا۔ گرفتار ملزمان میں آصف اور اس کے دو ساتھی شامل ہیں، جن سے رات گئے ایم ایس جنرل ہسپتال اور پینز کی موجودگی میں تفتیش کا سلسلہ جاری رہا۔
ذرائع کے مطابق، برآمد ہونے والے سٹاک میں پی آئی سی کے ایمرجنسی وارڈ میں استعمال ہونے والا قیمتی انجکشن ہیپارین اور چلڈرن ہسپتال میں گردوں کی پیوندکاری کے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی ادویات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، جناح ہسپتال، سروسز ہسپتال، لاہور جنرل ہسپتال، پنکاں انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز، اور سوشل سیکیورٹی ہسپتال کی ادویات بھی برآمد ہوئی ہیں۔
تھانہ کوٹ لکھپت پولیس نے رات گئے مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین بھی اس گروہ کے ساتھ ملوث ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب، چلڈرن ہسپتال میں ایک سیکیورٹی گارڈ حمزہ اسلام کو ڈسپوزایبلز چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ تھانہ نصیر آباد پولیس نے کارروائی کے دوران حمزہ اسلام کے بیگ سے بڑی تعداد میں آئی وی لائن سیٹس برآمد کیں اور مقدمہ درج کر لیا۔ تفتیش کے دوران حمزہ اسلام نے چوری میں ملوث مزید تین ملزمان جاوید مسیح، سلیم جارج، اور فیصل مسیح کی نشاندہی کی ہے، جن کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گروہ طویل عرصے سے سرکاری ہسپتالوں سے ادویات چوری کر کے انہیں غیر قانونی طور پر فروخت کر رہا تھا۔ مزید تفتیش جاری ہے، اور ممکن ہے کہ اس معاملے میں مزید لوگ بھی ملوث ہوں۔