سانحہ کرم کے بعد علاقے میں کشیدگی، پرتشدد واقعات میں مکانات اور دکانیں تباہ

1732353203557.png


خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں خواتین سمیت 43 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جس کے بعد پورے خطے میں سوگ اور کشیدگی کا ماحول ہے۔ واقعہ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران چند مقامات پر پرتشدد واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ تین مقامات پر دو مذہبی گروپوں کے درمیان مورچہ بند لڑائی شروع ہو چکی ہے، جس میں بھاری ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہیں۔


بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، لوئر کرم کے تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے تصدیق کی کہ "بگن میں متعدد مکانات اور بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپ کو آگ لگائی گئی ہے"۔


جمعرات کو مسافر گاڑیوں پر حملے میں ہلاکتوں کے خلاف مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا۔


رپورٹ کے مطابق، ضلع کرم کے لوئر پاراچنار میں موبائل انٹرنیٹ سروس متاثر ہے اور کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔


کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعہ کی شام طوری قبائل کی جانب سے لشکرکشی کا آغاز ہوا، اور اب لوئر کرم کے تین مقامات پر فریقین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے، جس میں بھاری ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔


کرم کے 14 کلومیٹر علاقے میں فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا، جہاں پہلے اہلکاروں اور پھر مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔


فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کی حفاظت پر مامور ایک اہلکار نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ "ہم پانچ سے چھ اہلکار تھے، معلوم نہیں چلا کہ فائرنگ کہاں سے ہوئی"۔


انہوں نے بتایا کہ "قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی، اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں فائرنگ ہوتی رہی۔ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بھگن اور اوچھات شامل ہیں"۔


عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ جب قافلہ ایک حملے سے بچ کر دوسرے علاقے میں داخل ہوتا تو پھر فائرنگ کی جاتی تھی، اور یہ سلسلہ تین علاقوں تک جاری رہا۔
 

Back
Top