
جنوب مشرقی ایشیا میں واقع جمہوریہ انڈونیشیا میں نئے متعارف کروائے گئے انتخابی قوانین کے خلاف پچھلے ایک ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں کے شدت اختیار کر لیا اور عوام پارلیمنٹ کی عمارت تک پہنچ گئے۔
بین الاقوامی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حکومت کی پارلیمانی اتحادی جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی انتخابی قوانین میں ترامیم کے خلاف پچھلے ایک ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں نے شدت اختیار کر لی ہے اور عوام نے پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو اور حکومت میں ان کے ساتھ اتحاد میں شامل پارلیمانی پارٹیوں نے انتخابی قوانین میں ترامیم تجویز کی تھیں جس کے خلاف عوامی مظاہروں نے شدت اختیار کر لی اور پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر پہنچ گئے۔ احتجاجی مظاہرین کے باعث پارلیمنٹ کا کورم پورا نہ ہو سکا اور انتخابی قوانین میں مجوزہ ترامیم پر بحث بھی نہ ہو سکی۔
انڈونیشیا کی اپوزیشن جماعت کی طرف سے انتخابی قوانین میں مجوزہ ترامیم کو صدر جوکو ویدودو کے بیٹے کو مقامی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ دلوانے کے لیے کی جانے والی سوچی سمجھی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم کا مقصد صدر جوکو ویدودو کے بیٹے کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اہل قرار دلوانا ہے جس پر پچھلے ایک ہفتے سے عوام کی طرف سے احتجاج جاری ہے۔
انڈونیشیا کے پارلیمنٹ کے علاوہ الیکشن کمیشن آفس کے باہر بھی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کی طرف سے آنسوگیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور 300 سے زیادہ مظاہرین گرفتار کر لیے گئے۔ مظاہرین نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں انتخابی قوانین میں ترامیم پر بحث ہونی تھی جو مظاہرین کے پارلیمنٹ میں گھسنے کی کوشش کرنے کی وجہ سے کورم پورا نہ ہو سکا۔
علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے احتجاجی مظاہرین سے نپٹنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو مختلف جگہوں پر تعینات کر دیا گیا ہے اور اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے مظاہروں کی وجہ سے انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا سمیت بڑے شہروں یوگیاکارتا ، بنڈونگ اور پڈانگ میں احتجاج کے باعث نظام زندگی عملاً معطل ہو چکا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/4indonesiaiainkshdhhd.png