https://twitter.com/x/status/1726850387330867387
جیل ٹرائل کےلئے طریقہ کار ہے، پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ جیل ٹرائل کے لئے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائیکورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، سلمان اکرم راجہ
https://twitter.com/x/status/1726857475901784068 راجہ صاحب، اپنے دلائل کو ذرا واضح کر دیں، کیا آپ سمجھتے ہیں 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیرہے،کابینہ منظوری کیلئے جوڈیشل آرڈر بنیادی چیز ہے جو موجود نہیں، وکیل سلمان اکرم راجہ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل ڈویژن بینچ سماعت کر رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے،
اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تواس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسس کا آغازٹرائل کورٹ جج نے کیا توآگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا،
جیل ٹرائل کیلئے منظوری وفاقی کابینہ نے دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبرسے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود ہی نہیں، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے، جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہیے، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں، یہ اس کیس میں سب سے بنیادی غیرقانونی اقدام ہے،
اب وفاقی کابینہ نے منظوری تو دے دی لیکن بنیادی جوڈیشل آرڈر موجود ہی نہیں، مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہوگئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیرقانونی ہے، جج نے 8 نومبر کو وزارت قانون کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، 16 اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا،
میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہو گا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔
جج نے لیٹرمیں لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے، کابینہ کی منظوری کے باوجود اس جیل ٹرائل نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو گا، جج بھی اپنے لیٹر میں ماضی نہیں بلکہ مستقبل کی بات کر رہے ہیں، یہ لیٹر چیف کمشنر نے وزارت داخلہ کو بھجوایا،
وزارت داخلہ سے لیٹر وزارت قانون کے پاس گیا اور سمری تیار کر کے کابینہ کو بھجوائی گئی، 10 نومبر کو تیار کی گئی سمری میں ماضی کے جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، جج نے لیٹر میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا،
جو چیز مانگی ہی نہیں گئی کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے؟سلمان اکرم راجہ
جسٹس گل حسن نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ نے جوڈیشل آرڈر کے بغیر منظوری دی۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز رجسٹرار ہائی کورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسس کا آغاز اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا، یہ بھی بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائی کورٹ کو آگاہ بھی کیا۔
Source
جیل ٹرائل کےلئے طریقہ کار ہے، پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ جیل ٹرائل کے لئے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائیکورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، سلمان اکرم راجہ
https://twitter.com/x/status/1726857475901784068 راجہ صاحب، اپنے دلائل کو ذرا واضح کر دیں، کیا آپ سمجھتے ہیں 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیرہے،کابینہ منظوری کیلئے جوڈیشل آرڈر بنیادی چیز ہے جو موجود نہیں، وکیل سلمان اکرم راجہ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل ڈویژن بینچ سماعت کر رہا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے،
اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تواس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے، اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسس کا آغازٹرائل کورٹ جج نے کیا توآگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا،
جیل ٹرائل کیلئے منظوری وفاقی کابینہ نے دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبرسے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود ہی نہیں، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے، جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہیے، ابھی تک ایسا کوئی آرڈر موجود نہیں، یہ اس کیس میں سب سے بنیادی غیرقانونی اقدام ہے،
اب وفاقی کابینہ نے منظوری تو دے دی لیکن بنیادی جوڈیشل آرڈر موجود ہی نہیں، مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہوگئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیرقانونی ہے، جج نے 8 نومبر کو وزارت قانون کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، 16 اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا،
میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوتا ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہو گا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔
جج نے لیٹرمیں لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے، کابینہ کی منظوری کے باوجود اس جیل ٹرائل نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہو گا، جج بھی اپنے لیٹر میں ماضی نہیں بلکہ مستقبل کی بات کر رہے ہیں، یہ لیٹر چیف کمشنر نے وزارت داخلہ کو بھجوایا،
وزارت داخلہ سے لیٹر وزارت قانون کے پاس گیا اور سمری تیار کر کے کابینہ کو بھجوائی گئی، 10 نومبر کو تیار کی گئی سمری میں ماضی کے جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، جج نے لیٹر میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا،
جو چیز مانگی ہی نہیں گئی کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے؟سلمان اکرم راجہ
جسٹس گل حسن نے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ نے جوڈیشل آرڈر کے بغیر منظوری دی۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز رجسٹرار ہائی کورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسس کا آغاز اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا، یہ بھی بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائی کورٹ کو آگاہ بھی کیا۔
Source
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/RP5jT6b/salman-a.jpg
Last edited by a moderator: