
معروف صحافی حامد میر نے بھارتی حکومت کے پہلگام حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام دراصل انٹیلی جنس کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے۔ حامد میر نے کہا کہ پہلگام میں اس قسم کے حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، اور بھارتی سکیورٹی فورسز اس خطرناک علاقے میں سیاحوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ پاکستان کی طرف سے نہیں کیا گیا، بلکہ یہ بھارت کی اپنی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے یہ قدم اُٹھا کر اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے، اور اس کا مقصد پاکستان پر الزام دھریں۔
https://twitter.com/x/status/1915099688665022796
حامد میر نے جیو نیوز کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو میں بھارت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ ایک طویل عرصے سے بھارت کا ایک مقصد تھا۔ ان کے مطابق بھارت اس معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ بھارت کو ورلڈ بینک کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاہدہ کرانے پر تحفظات تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا خیال تھا کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستان کو پانی کے معاملے میں ریلیف ملتا ہے، خاص طور پر جب بھارت برسات کے موسم میں اپنے پانی چھوڑتا ہے، اور پاکستان ورلڈ بینک کو شکایت کرتا ہے، جس کے بعد پاکستان کو کچھ ریلیف مل جاتا ہے۔ حامد میر کے مطابق بھارت کی کوشش تھی کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائے تاکہ پاکستان کو اس سے متعلق کسی قسم کا فائدہ نہ ملے۔
انہوں نے اس فیصلے کے پیچھے ایک انٹیلیجنس ناکامی کا اشارہ دیا۔ حامد میر کے مطابق، بھارت نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر سندھ طاس معاہدہ معطل کیا اور پاکستان ہائی کمیشن کے عملے کو واپس جانے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایکسکیوز ہے تاکہ بھارت اپنی انٹیلیجنس ناکامی اور مجرمانہ غفلت کو چھپانے کی کوشش کر سکے۔
حامد میر کے مطابق، پہلگام میں ہونے والا حملہ لائن آف کنٹرول سے کئی سو کلومیٹر دور ہوا تھا اور اس علاقے میں سڑکیں تک نہیں پہنچتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کا سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ اس علاقے میں پہلے بھی ہو چکے ہیں، اور بھارتی فوج یہاں سرچ آپریشن کرتی رہی ہے، جس میں بھارتی فوج کے سینئر افسران مارے بھی گئے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ پہلگام میں ہر سال یوم یاتریوں پر حملے ہوتے ہیں، اور یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سندھ طاس معاہدہ فوری طور پر معطل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان نے سرحد پار دہشت گردی کی حمایت نہیں روکی تو سندھ طاس معاہدہ تب تک معطل رہے گا۔
مقبوضہ کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ روز فائرنگ کے ایک افسوسناک واقعے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ واقعہ مقبوضہ کشمیر میں ایک مسلمان اکثریتی علاقے میں پیش آیا۔ حملے میں 26 مرد ہلاک ہوئے اور 17 افراد زخمی بھی ہوئے۔
بھارت کی جانب سے اس حملے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس حملے کے پس منظر میں سرحد پار سے دہشت گردی کے روابط ہیں۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کیبنٹ کمیٹی برائے سیکیورٹی (سی سی ایس) نے اس حملے کے جواب میں سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام پاکستان کے دہشت گردوں کی حمایت کرنے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان پانی کے وسائل کی تقسیم کی جاتی ہے۔ بھارتی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان جب تک سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ختم نہیں کرتا، تب تک اس معاہدے کا نفاذ نہیں ہوگا۔
بھارتی حکومت نے پاکستانی شہریوں کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ 48 گھنٹوں میں بھارت کو چھوڑ دیں۔ بھارت نے سارک ویزا استثنیٰ اسکیم کے تحت پاکستانیوں کو بھارت آنے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور اس کے تحت ماضی میں جاری کردہ تمام ویزوں کو منسوخ کر دیا ہے۔
وکرم مسری نے مزید کہا کہ بھارت اسلام آباد میں موجود اپنے دفاعی، بحریہ اور فضائی مشیروں کو واپس بلائے گا، اور ہائی کمیشن میں موجود عملے کی تعداد کو 55 سے کم کر کے 30 تک لایا جائے گا۔ یکم مئی تک مزید کمی متوقع ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھارتی اقدامات کے جواب میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کر لیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس بات کا اعلان کیا کہ اجلاس میں عسکری قیادت بھی شریک ہوگی اور بھارت کے اقدامات کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔
Last edited: