pak2010
MPA (400+ posts)
[h=1]سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا[/h]

عمران خاں اور نواز شریف کے حامیوں کو ان سے سوال کرنا چاہئیے کہ یہ وطیرہ انہوں نے کیوں اختیار کیا۔ ملکوں اور معاشروں کی حفاظت افواج او ر حکومتیں نہیں، اقوام کیا کرتی ہیں۔قوم ہی اگر سوگئی تو نتیجہ معلوم۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ژولیدہ فکری ہے اور ایسی ژولیدہ فکری کہ قوم نے اس سے نجات نہ پائی تو کوئی چیز اسے تباہی سے بچانہ سکے گی۔ سیاسی قیادت اس وقت امریکہ کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے جب عسکری قیادت نے ماضی کے جرائم کی تلافی اور قومی خودداری کی راہ اختیار کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ فیصلہ نہیں ، فقط ارادہ ہے اور یکسوئی ابھی باقی ہے ۔انکل سام کا کھیل یہ ہے کہ این جی اوز اور کرائے کے دانشوروں کی مدد سے آزاد عدالتوں اور آزاد میڈیا کے زیرِ سایہ قومی بیداری کے فروغ کو یہیں روک دیا جائے۔ امید کی کوئی کرن ہے تو نئی نسل سے ، دانشوروں اور لیڈروں سے نہیں ۔
ڈاکٹر صفدر محمود سے مودبانہ معذرت کے ساتھ میاں محمد نواز شریف نظریہ پاکستان کے بارے میں ہر گز کسی ابہام کا شکار نہیں۔ اس میںمگر کلام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب تحریکِ پاکستان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ مسئلہ مگر دوسرا ہے ۔ کوئی ایک بھی محبّ وطن اخبار نویس یا دانشور نہیں ، جسے میاں صاحب نے رنج نہ پہنچا یاہو ۔ جن دو اخبار نویسوں نے ان کا دفاع کیا وہ سرے سے نظریہ پاکستان کے قائل ہی نہیں۔ ان میںسے ایک نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر پر کراہت کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے یہ اصطلاح کیوں استعمال کی ۔ دوسرے دانشور کا کہنا یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں آچکا تو ود قومی نظریے کی اب ضرورت کیا ہے ۔ عمارت بن چکی تو بنیاد کا جواز کیا ؟
میاں نواز شریف کا خاندان ان 76.5فیصد مسلمانوںمیں سے ایک ہے ، 1946ئ کے انتخابات میں جنہوں نے قیامِ پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہ کاروباری لوگ تھے اور سیاست سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ وہی نواز شریف ہیں ، 1998ئ میں جنہوں نے امریکی دبائو کے باوجود بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کیے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی۔ 1990ئ میں پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد انہوںنے کئی ہفتے تک امریکی سفیر کو ملاقات کے لیے منتظر رکھا تھا۔ انہی نواز شریف نے 1993ئ میں مسلم لیگ اسلام آباد کے دفتر میں ایک اہم اجلاس میں کہا تھا : کیا امریکیوں کے کہنے پر ہم کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں۔ اس اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے، مرحوم خلیل ملک کی آواز شدت جذبات سے کانپ رہی تھی ۔ ایک خلیل ملک ہی کیا، مسلم لیگی کارکنوں اور ووٹروں کی اکثریت ان کے خیالات سے ہرگز اتفاق نہ کرے گی۔ اگر کسی کو اختلاف ہو تو میں پیشکش کرتا ہوں کہ گیلپ کے دیانتدار او رپیشہ ورانہ لحاظ سے غیر معمولی اعتبار کے حامل ، ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے اہتمام سے باقاعدہ سروے کرا لیا جائے۔
مسئلہ دوسرا ہے اور بالکل واضح ہے ۔ وہ ایک عملی سیاستدان ہیں اور اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکی تائید کے بغیر وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتے،لہٰذا انکل سام کی ترجیحات کو نظر انداز نہ کرنا چاہئیے۔ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ امریکہ اس خطہ ارض میں بھارت کی بالادستی چاہتا ہے ؛لہٰذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہئیے۔وگرنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ بی جے پی تو کیا کانگریس نے بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیااور یہی اصل مسئلہ ہے ورنہ احمقوں اور جنونیوں کے سوا پڑوسی ممالک سے جنگ اور پیہم محاذ آرائی کا آرزومند کون ہوتا ہے ۔ اقتدار طلبی کے تقاضوں اور اپنے نظریاتی رجحانات کے درمیان میاں صاحب کنفیوژن کا شکار رہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے فروغ میں ان کے ذاتی مفادات پوشیدہ تھے اور دوسروں سے زیادہ نظریہ ئ پاکستان کا علمبردار اخبار اس کی نشاندہی کرتا رہا۔ پھر 12 اکتوبر 1999ئ کا حادثہ پیش آیا، جب فوج نے انہیں اکھاڑ پھینکا۔ گیلپ کے سروے کے مطابق 70فیصد پاکستانیوں نے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔ صرف اس لیے نہیں کہ میاں صاحب نے سپریم کورٹ پر حملہ کرایا، صرف اس لیے نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے روزنامہ جنگ کو ان کے محتسب سیف الرحمٰن نے تباہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اس لیے کہ ان کے دور میں مہنگائی اور بدامنی مسلسل بڑھتی رہی۔ نون لیگ کی چھتری تلے قبضہ گروپ پیہم فروغ پاتے رہے۔ پولیس اور پٹوار مسلسل بگڑتی رہی۔ اس لیے کہ میاں صاحب اصلاح کا عزم نہ رکھتے تھے اور زرو ظلم کے اس غلیظ نظام سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ وہ پاکستانی فوج کے کبھی مخالف نہ تھے کہ اسی کی گودمیں وہ پروان چڑھے تھے۔ پاکستان کے ہر آرمی چیف سے ان کے تعلقات صرف اس لیے کشیدہ رہے کہ وہ قادرِ مطلق بننے کے آرزومند تھے ، بادشاہت کے تمنّائی ۔ 1990ئ میں وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک ترمیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ، جس کے تحت وزیر اعظم کو دستور کا کوئی بھی حصہ معطل کرنے کا اختیار ہوتا۔ اگر میڈیا، صدر غلام اسحٰق خاں، اپوزیشن اور خود ان کی جماعت مزاحم نہ ہو جاتی تو وہ لازماً ایسا کر گزرتے۔
جہاں تک اس موقف کا تعلق ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہئیے تو پرلے درجے کا کوئی متعصب اورمفاد پرست ہی اس کی مخالفت کر سکتاہے ۔ جوبات سمجھ میں آکر بھی انہیں سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ ساری دنیا کی طرح صرف ایک طاقتور میڈیا، آزاد عدالت اور ایسی منظم سیاسی جماعتیں ہی فوج کی مداخلت روک سکتی ہیں، نچلی سطح تک جن میں الیکشن ہوتے ہوں اور جو قومی امنگوں سے ہم آہنگ ہوں ۔ جو امن قائم کر دیں، کم از کم 16فیصد ٹیکس وصول کریں اور قومی حمیت اور دفاع کے تقاضوں کی پاسداری کریں۔ میاں صاحب کا تضاد علمی سے زیادہ اخلاقی اورعملی ہے ۔ وہ اقتدار کے لیے بے تاب ہیں ۔ دن رات اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور امریکہ بہادر تو کیا ، برطانیہ کو بھی ناراض نہیں کرسکتے۔ انہی کے ایما پردو بار 2008ئ کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے باوجود آخر کار انہوں نے شامل ہونے اور پیپلز پارٹی کا شریکِ کار بننے کا فیصلہ کیا۔سب سے بڑا المیہ ان کا یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ شخصیت کے تضاد کی بدترین شکل یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنی خامیوں پر غور کرنے سے انکار کر دے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ انہیں فوج کو سیاست سے الگ رکھنے پر اصرار اور دبائوکو قائم رکھتے ہوئے، دفاعی معاملات میں عسکری قیادت سے وہ کم از کم تعلقات کار قائم کرنا چاہئیں جو ہر حال میں ضروری ہوتے ہیں۔ ان پر مگر انتقام اور خود فریبی سوار ہے ۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار ان کے ایما پر جی ایچ کیو جایا کرتے ہیں اور خود وہ سیاست کے سٹیج پر قائد اعظم ثانی کا کردار ادا کرتے ہیں۔اگر اپنے تضاد سے وہ نجات پا سکتے تو ان کی ترجیح یہ ہونی چاہئیے تھی کہ کچھ عرضے قاف لیگ کو معتوب رکھنے کے بعد وہ انہیں معاف کر دیتے ۔ پارٹی میں واپس لیتے اور جماعت میں الیکشن کرادیتے ۔ جنرل مشرف کا ساتھ دینے والے مرغانِ باد نما اس الیکشن میں تحلیل ہو جاتے۔ بالکل برعکس انہوںنے تو اب بھی نامزدگیوں کا طریق اختیار کیا حالانکہ ہرگز ان کی قیادت کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔ جو شخص اپنا مسئلہ خود حل نہ کرنا چاہے ، کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ صدر آصف علی زرداری کو وہ بدعنوان کہتے ہیں ۔ کیا وہ خود بدعنوان نہیں۔ ان کی دولت برطانیہ، دبئی سوئٹزر لینڈ اور سعودی عرب میں پڑی ہے اور واضح طور پر وہ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہیں ۔ خوب ا چھی طرح سے وہ جانتے ہیں کہ عدالت یا عوامی تحریک، جس راہ سے زرداری حکومت جائے گی، خود ان کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا؛لہٰذا لانگ مارچ کے دعوے وہ بہت کریں گے مگر اس کا ارتکاب کبھی نہ کریں گے ۔ دوبرس پہلے پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد احتجاج کی بات دوسری تھی۔ تب عنوان ججوں کی بحالی تھا اور پوری کی پوری اپوزیشن ، میڈیا اور رائے عامہ انکے ساتھ تھے۔ اپنے سب سے مضبوط مرکز ہزارہ ڈویژن کو وہ کھو چکے۔ سرائیکی پٹی کے 52میں سے صرف 9ارکان ان کے ساتھ ہیںاور نئے صوبے کی تحریک کے ہنگام یہ تعداد بڑھ نہیں سکتی۔ سیاسی طور پر وہ تحلیل ہو رہے ہیں کہ گلگت بلتستان، سرائیکی پٹی اور سیاسی اتحادوں کے میدان میں صدر زرداری نے انہیں شکستِ فاش سے دوچار کر دیا ہے ۔ سب سے سنگین مسئلہ عمران خان ہیں ؛اگرچہ ان کی تنظیم اچھی نہیں اور موزوں امیدوار ابھی دستیاب نہیں ۔ غیر جانبدار اور قابلِ اعتباد اداروںکے سروے مگر یہ کہتے ہیں کہ دیانتدار ، صداقت شعار اور غیر ملکی دبائو کے مقابل ڈٹ کر کھڑے رہنے کی صلاحیت رکھنے والے عمران خاں ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ نواز شریف کو اب نئے حلیفوں کی ضرورت ہے ۔ سیفما نے اس ضرورت کو پورا کرنے کا ارادہ کیا اور اس پر کسی کو ان سے شکایت نہ ہونی چاہیئے۔ میاں صاحب کی ترجیح یہ ہے کہ بہرحال عمران خاں کو میڈیا میں اجاگر نہ ہونے دیا جائے۔ اس کی کردار کشی کے لیے ایک سیل وہ بنا چکے اور کہا جاتا ہے کہ اسی سیل کے ایک رکن سیفما کے ساتھ ان کا موثر ترین رابطہ ہیں۔ نواز شریف کے طرزِ عمل پر مجھے ہرگز کوئی حیرت نہیں، حیرت عمران خان پر ہے ۔ قائد اعظم(رح) اور اقبال(رح) کے نظریات کا یہ علمبردار خاموش کیوں ہے ؟اگر وہ بھی خاموش رہے گا تو امید کس سے باندھی جائے گی۔ وہ قوم برباد ہوگی جو اپنے لیڈروں کا احتساب نہیں کرتی۔ عمران خاں اور نواز شریف کے حامیوں کو ان سے سوال کرنا چاہئیے کہ یہ وطیرہ انہوں نے کیوں اختیار کیا۔ ملکوں اور معاشروں کی حفاظت افواج او رحکومتیں نہیں، اقوام کیا کرتی ہیں۔قوم ہی اگر سوگئی تو نتیجہ معلوم۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ژولیدہ فکری ہے اور ایسی ژولیدہ فکری کہ قوم نے اس سے نجات نہ پائی تو کوئی چیز اسے تباہی سے بچانہ سکے گی۔ سیاسی قیادت اس وقت امریکہ کے ہاتھ میں کھیل رہی ہے جب عسکری قیادت نے ماضی کے جرائم کی تلافی اور قومی خودداری کی راہ اختیار کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ فیصلہ نہیں ، فقط ارادہ ہے اور یکسوئی ابھی باقی ہے ۔انکل سام کا کھیل یہ ہے کہ این جی اوز اور کرائے کے دانشوروں کی مدد سے آزاد عدالتوں اور آزاد میڈیا کے زیرِ سایہ قومی بیداری کے فروغ کو یہیں روک دیا جائے۔ امید کی کوئی کرن ہے تو نئی نسل سے ، دانشوروں اور لیڈروں سے نہیں ۔
ڈاکٹر صفدر محمود سے مودبانہ معذرت کے ساتھ میاں محمد نواز شریف نظریہ پاکستان کے بارے میں ہر گز کسی ابہام کا شکار نہیں۔ اس میںمگر کلام نہیں کہ ڈاکٹر صاحب تحریکِ پاکستان پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ مسئلہ مگر دوسرا ہے ۔ کوئی ایک بھی محبّ وطن اخبار نویس یا دانشور نہیں ، جسے میاں صاحب نے رنج نہ پہنچا یاہو ۔ جن دو اخبار نویسوں نے ان کا دفاع کیا وہ سرے سے نظریہ پاکستان کے قائل ہی نہیں۔ ان میںسے ایک نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر پر کراہت کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے یہ اصطلاح کیوں استعمال کی ۔ دوسرے دانشور کا کہنا یہ ہے کہ جب پاکستان وجود میں آچکا تو ود قومی نظریے کی اب ضرورت کیا ہے ۔ عمارت بن چکی تو بنیاد کا جواز کیا ؟
میاں نواز شریف کا خاندان ان 76.5فیصد مسلمانوںمیں سے ایک ہے ، 1946ئ کے انتخابات میں جنہوں نے قیامِ پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہ کاروباری لوگ تھے اور سیاست سے انہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ وہی نواز شریف ہیں ، 1998ئ میں جنہوں نے امریکی دبائو کے باوجود بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کیے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی۔ 1990ئ میں پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد انہوںنے کئی ہفتے تک امریکی سفیر کو ملاقات کے لیے منتظر رکھا تھا۔ انہی نواز شریف نے 1993ئ میں مسلم لیگ اسلام آباد کے دفتر میں ایک اہم اجلاس میں کہا تھا : کیا امریکیوں کے کہنے پر ہم کلمہ پڑھنا چھوڑ دیں۔ اس اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے، مرحوم خلیل ملک کی آواز شدت جذبات سے کانپ رہی تھی ۔ ایک خلیل ملک ہی کیا، مسلم لیگی کارکنوں اور ووٹروں کی اکثریت ان کے خیالات سے ہرگز اتفاق نہ کرے گی۔ اگر کسی کو اختلاف ہو تو میں پیشکش کرتا ہوں کہ گیلپ کے دیانتدار او رپیشہ ورانہ لحاظ سے غیر معمولی اعتبار کے حامل ، ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے اہتمام سے باقاعدہ سروے کرا لیا جائے۔
مسئلہ دوسرا ہے اور بالکل واضح ہے ۔ وہ ایک عملی سیاستدان ہیں اور اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکی تائید کے بغیر وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکتے،لہٰذا انکل سام کی ترجیحات کو نظر انداز نہ کرنا چاہئیے۔ انہوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ امریکہ اس خطہ ارض میں بھارت کی بالادستی چاہتا ہے ؛لہٰذا اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لینا چاہئیے۔وگرنہ وہ خوب جانتے ہیں کہ بی جے پی تو کیا کانگریس نے بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیااور یہی اصل مسئلہ ہے ورنہ احمقوں اور جنونیوں کے سوا پڑوسی ممالک سے جنگ اور پیہم محاذ آرائی کا آرزومند کون ہوتا ہے ۔ اقتدار طلبی کے تقاضوں اور اپنے نظریاتی رجحانات کے درمیان میاں صاحب کنفیوژن کا شکار رہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کے فروغ میں ان کے ذاتی مفادات پوشیدہ تھے اور دوسروں سے زیادہ نظریہ ئ پاکستان کا علمبردار اخبار اس کی نشاندہی کرتا رہا۔ پھر 12 اکتوبر 1999ئ کا حادثہ پیش آیا، جب فوج نے انہیں اکھاڑ پھینکا۔ گیلپ کے سروے کے مطابق 70فیصد پاکستانیوں نے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔ صرف اس لیے نہیں کہ میاں صاحب نے سپریم کورٹ پر حملہ کرایا، صرف اس لیے نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے روزنامہ جنگ کو ان کے محتسب سیف الرحمٰن نے تباہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اس لیے کہ ان کے دور میں مہنگائی اور بدامنی مسلسل بڑھتی رہی۔ نون لیگ کی چھتری تلے قبضہ گروپ پیہم فروغ پاتے رہے۔ پولیس اور پٹوار مسلسل بگڑتی رہی۔ اس لیے کہ میاں صاحب اصلاح کا عزم نہ رکھتے تھے اور زرو ظلم کے اس غلیظ نظام سے فائدہ اٹھانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ وہ پاکستانی فوج کے کبھی مخالف نہ تھے کہ اسی کی گودمیں وہ پروان چڑھے تھے۔ پاکستان کے ہر آرمی چیف سے ان کے تعلقات صرف اس لیے کشیدہ رہے کہ وہ قادرِ مطلق بننے کے آرزومند تھے ، بادشاہت کے تمنّائی ۔ 1990ئ میں وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک ترمیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ، جس کے تحت وزیر اعظم کو دستور کا کوئی بھی حصہ معطل کرنے کا اختیار ہوتا۔ اگر میڈیا، صدر غلام اسحٰق خاں، اپوزیشن اور خود ان کی جماعت مزاحم نہ ہو جاتی تو وہ لازماً ایسا کر گزرتے۔
جہاں تک اس موقف کا تعلق ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہئیے تو پرلے درجے کا کوئی متعصب اورمفاد پرست ہی اس کی مخالفت کر سکتاہے ۔ جوبات سمجھ میں آکر بھی انہیں سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ ساری دنیا کی طرح صرف ایک طاقتور میڈیا، آزاد عدالت اور ایسی منظم سیاسی جماعتیں ہی فوج کی مداخلت روک سکتی ہیں، نچلی سطح تک جن میں الیکشن ہوتے ہوں اور جو قومی امنگوں سے ہم آہنگ ہوں ۔ جو امن قائم کر دیں، کم از کم 16فیصد ٹیکس وصول کریں اور قومی حمیت اور دفاع کے تقاضوں کی پاسداری کریں۔ میاں صاحب کا تضاد علمی سے زیادہ اخلاقی اورعملی ہے ۔ وہ اقتدار کے لیے بے تاب ہیں ۔ دن رات اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور امریکہ بہادر تو کیا ، برطانیہ کو بھی ناراض نہیں کرسکتے۔ انہی کے ایما پردو بار 2008ئ کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے باوجود آخر کار انہوں نے شامل ہونے اور پیپلز پارٹی کا شریکِ کار بننے کا فیصلہ کیا۔سب سے بڑا المیہ ان کا یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ شخصیت کے تضاد کی بدترین شکل یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنی خامیوں پر غور کرنے سے انکار کر دے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ انہیں فوج کو سیاست سے الگ رکھنے پر اصرار اور دبائوکو قائم رکھتے ہوئے، دفاعی معاملات میں عسکری قیادت سے وہ کم از کم تعلقات کار قائم کرنا چاہئیں جو ہر حال میں ضروری ہوتے ہیں۔ ان پر مگر انتقام اور خود فریبی سوار ہے ۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار ان کے ایما پر جی ایچ کیو جایا کرتے ہیں اور خود وہ سیاست کے سٹیج پر قائد اعظم ثانی کا کردار ادا کرتے ہیں۔اگر اپنے تضاد سے وہ نجات پا سکتے تو ان کی ترجیح یہ ہونی چاہئیے تھی کہ کچھ عرضے قاف لیگ کو معتوب رکھنے کے بعد وہ انہیں معاف کر دیتے ۔ پارٹی میں واپس لیتے اور جماعت میں الیکشن کرادیتے ۔ جنرل مشرف کا ساتھ دینے والے مرغانِ باد نما اس الیکشن میں تحلیل ہو جاتے۔ بالکل برعکس انہوںنے تو اب بھی نامزدگیوں کا طریق اختیار کیا حالانکہ ہرگز ان کی قیادت کو کوئی خطرہ درپیش نہ تھا۔ جو شخص اپنا مسئلہ خود حل نہ کرنا چاہے ، کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ صدر آصف علی زرداری کو وہ بدعنوان کہتے ہیں ۔ کیا وہ خود بدعنوان نہیں۔ ان کی دولت برطانیہ، دبئی سوئٹزر لینڈ اور سعودی عرب میں پڑی ہے اور واضح طور پر وہ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہیں ۔ خوب ا چھی طرح سے وہ جانتے ہیں کہ عدالت یا عوامی تحریک، جس راہ سے زرداری حکومت جائے گی، خود ان کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا؛لہٰذا لانگ مارچ کے دعوے وہ بہت کریں گے مگر اس کا ارتکاب کبھی نہ کریں گے ۔ دوبرس پہلے پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد احتجاج کی بات دوسری تھی۔ تب عنوان ججوں کی بحالی تھا اور پوری کی پوری اپوزیشن ، میڈیا اور رائے عامہ انکے ساتھ تھے۔ اپنے سب سے مضبوط مرکز ہزارہ ڈویژن کو وہ کھو چکے۔ سرائیکی پٹی کے 52میں سے صرف 9ارکان ان کے ساتھ ہیںاور نئے صوبے کی تحریک کے ہنگام یہ تعداد بڑھ نہیں سکتی۔ سیاسی طور پر وہ تحلیل ہو رہے ہیں کہ گلگت بلتستان، سرائیکی پٹی اور سیاسی اتحادوں کے میدان میں صدر زرداری نے انہیں شکستِ فاش سے دوچار کر دیا ہے ۔ سب سے سنگین مسئلہ عمران خان ہیں ؛اگرچہ ان کی تنظیم اچھی نہیں اور موزوں امیدوار ابھی دستیاب نہیں ۔ غیر جانبدار اور قابلِ اعتباد اداروںکے سروے مگر یہ کہتے ہیں کہ دیانتدار ، صداقت شعار اور غیر ملکی دبائو کے مقابل ڈٹ کر کھڑے رہنے کی صلاحیت رکھنے والے عمران خاں ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ نواز شریف کو اب نئے حلیفوں کی ضرورت ہے ۔ سیفما نے اس ضرورت کو پورا کرنے کا ارادہ کیا اور اس پر کسی کو ان سے شکایت نہ ہونی چاہیئے۔ میاں صاحب کی ترجیح یہ ہے کہ بہرحال عمران خاں کو میڈیا میں اجاگر نہ ہونے دیا جائے۔ اس کی کردار کشی کے لیے ایک سیل وہ بنا چکے اور کہا جاتا ہے کہ اسی سیل کے ایک رکن سیفما کے ساتھ ان کا موثر ترین رابطہ ہیں۔ نواز شریف کے طرزِ عمل پر مجھے ہرگز کوئی حیرت نہیں، حیرت عمران خان پر ہے ۔ قائد اعظم(رح) اور اقبال(رح) کے نظریات کا یہ علمبردار خاموش کیوں ہے ؟اگر وہ بھی خاموش رہے گا تو امید کس سے باندھی جائے گی۔ وہ قوم برباد ہوگی جو اپنے لیڈروں کا احتساب نہیں کرتی۔ عمران خاں اور نواز شریف کے حامیوں کو ان سے سوال کرنا چاہئیے کہ یہ وطیرہ انہوں نے کیوں اختیار کیا۔ ملکوں اور معاشروں کی حفاظت افواج او رحکومتیں نہیں، اقوام کیا کرتی ہیں۔قوم ہی اگر سوگئی تو نتیجہ معلوم۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا