موجودہ بینکاری نظام سود کی بدولت قائم ہے، سود ہی وہ واحد انسینٹیو ہے جو اس کاروبار کی بنیاد ہے۔ بینکوں کا بنیادی کام قرضوں کا لین دین ہے اور کوئی بھی کاروباری ادارہ بغیر اپنا نفع لئے قرض دے کر قائم نہیں رہ سکتا، اس لئے بینکاری نظام میں سود ایک لازم و ملزوم چیز ہے۔ اس جدید بینکنگ سسٹم نے انسانی معاشروں کو بے بہا سہولیات فراہم کی ہیں۔ چھوٹی کمپنیز سے لے کر بڑی کمپنیز ان بینکوں سے قرض لے کر کاروبار کے قیام سے لے کر کاروبار کی توسیع تک کے کام سرانجام دیتی ہیں، جس سے معاشرے میں روزگار پیدا ہوتا ہے۔ بڑی سے بڑی کمپنی کو بھی قرض کی ضرورت پڑتی ہے، اگر کسی کمپنی کے پاس ایک پلانٹ ہے اور وہ دو اور پلانٹ لگانا چاہتی ہے اور اس کے پاس درکار پیسہ نہیں ہے تو وہ بینک کے پاس جاتی ہے، بینک اس کو ایک خاص شرح پر قرض دیتا ہے، پھر وہ کمپنی جب مزید پلانٹ لگاتی ہے تو اس سے پورے معاشرے کو فائدہ ہوتا ہے، وہ اپنے منافع سے بینک کو سود بھی ادا کرتی ہے، معاشرے کے لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرتی ہے اور معاشرے کو درکار پراڈکٹ بھی پیدا کرتی ہے۔ اس میں نہ صرف بینک کا فائدہ ہے، بلکہ اس کمپنی اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کا فائدہ ہے۔ مزید برآں جدید بینکنگ سسٹم کی بدولت پیسے کا لین دین بہت ہی آسان ہوگیا ہے۔ آپ گھر بیٹھے بیٹھے بڑے آرام سے کہیں بھی پیسے بھیج سکتے ہیں۔ کہیں سے بھی پیسے منگوا سکتے ہیں۔ پاکستان میں تو خیر اتنا رواج نہیں، مگر جدید معاشروں میں کار، کاروبار اور گھر تک ہر چیز کو بینک فائنانس کرتا ہے۔ آپ قسطوں میں بڑے آرام سے کار اور گھر لے سکتے ہیں۔
پاکستان میں چونکہ ہر معاملے کو مذہبی عینک سے دیکھا جاتا ہے اور جب مذہبی عینک پہنی جاتی ہے تو عقل ایک طرف رکھ دی جاتی ہے۔ عقل کہتی ہے کہ جس نظام سے آپ کے معاشرے کو فائدہ ہو اس کو اختیار کیا جائے جبکہ پاکستان میں ہر بندہ آپ کو سود حرام، سود حرام کی جگالی کرتا نظر آئے گا جبکہ کسی کے پاس عقلی دلیل نہیں ہوگی کہ سودی بینکاری نظام کس طرح معاشرے کیلئے غیر سود مند ہے۔ مزید برآں سود کے بغیر کوئی بینکاری نظام ہوہی نہیں سکتا، اسلامی بیکنگ کے نام پر جو کچھ چل رہا ہے وہ صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے ہے، وہ بھی لین اور دین سود کے تحت ہی کرتے ہیں بس اس کیلئے ٹرمنالوجی انہوں نے مذہبی اختیار کرلی ہوئی ہے۔
سودی بینکاری نظام بڑے سرمایہ کاروں سے لے کر مڈل کلاس لوگوں تک سب کیلئے مفید ہے۔ مڈل کلاس لوگ سودی بینکاری نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت حد تک اپنے پیسے کو انفلیشن کی وجہ سے ڈی ویلیو ہونے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں پچھلے دس گیارہ ماہ سے 22 فیصد انٹرسٹ ریٹ چل رہا ہے۔ اگر ایک شخص کے پاس دس لاکھ روپے ہیں اور وہ اس کوکسی بھی کنونشنل بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ کی بجائے سیونگ اکاؤنٹ (ماہانہ منافع والے) میں رکھتا ہے۔ تو ہر ماہ اس کے اکاؤنٹ میں تقریباً 17 ہزار روپے جمع ہوتے رہیں گے۔ کیونکہ سٹیٹ بینک کی منیمم ڈیپازٹ ریٹ پالیسی ( ایم ڈی آر) کے تحت تمام کنونشل بینکس اپنے ڈیپازٹرز کو پالیسی ریٹ مائنس ایک / ڈیڑھ فیصد پر منافع دینے کے پابند ہیں۔ دوسری طرف اگر آپ سود کو حرام کہہ کر اپنا پیسہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں تو آپ کے پیسے پر بینک تو سود پر قرضہ دے کر منافع کمائے گا ہی مگر آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔۔ اگر آپ واقعی سود کو حرام سمجھنے کی ضد پر قائم ہیں تو پھر بہتر ہے کہ بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی پیسہ مت رکھیں کیونکہ آپ کے پیسے سے ہی بینک کا سودی نظام چلتا ہے اور اگر آپ اپنا پیسہ بینک کو سودی نظام کیلئے دے رہے ہیں تو آپ سودی کاروبار کو چلانے کے حصہ دار بن رہے ہیں، ایسے میں آپ کیلئے سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا پیسہ گھر میں گڑھا کھود کر اس میں رکھ لیں۔۔
پاکستان کا قومی بچت کا ادارہ بھی سودی نظام کی بدولت ہی قائم ہے اس میں مڈل کلاس لوگوں کے لئے بہت سی سکیمیں ہیں جو رسک فری ہیں۔ آپ اگر ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ جو کہ دس سال کی مدت کیلئے ہوتے ہیں اس میں اپنے پیسے رکھ دیتے ہیں تو آپ کو دس سال بعد تقریباً تین گنا رقم ملے گی۔ اسی طرح ماہانہ ، سالانہ سکیمز بھی دستیاب ہیں جو کہ بہت سے مڈل کلاس لوگوں کو فائدہ دے سکتی ہیں۔
پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص کی "سود حرام ہے" کی جگالی کی وجہ سے عام لوگ، مڈل کلاس لوگ بینکوں اور قومی بچت جیسے اداروں سے منافع لینے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان اداروں کا تو فائدہ ہوجاتا ہے مگر عام آدمی نقصان اٹھاتا ہے۔ مڈل کلاس لوگ جو پہلے ہی غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مارے ہوتے ہیں وہ بہ آسانی دستیاب سہولت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں پرانے زمانے کی سوچ کو چھوڑ کر جدید زمانے کے تقاضوں کو سمجھنا چاہئے اور پاکستان میں اس سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سودی نظام ایک سود مند نظام ہے اور اس سے ہر شخص کو جس قدر ہوسکے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
پاکستان میں چونکہ ہر معاملے کو مذہبی عینک سے دیکھا جاتا ہے اور جب مذہبی عینک پہنی جاتی ہے تو عقل ایک طرف رکھ دی جاتی ہے۔ عقل کہتی ہے کہ جس نظام سے آپ کے معاشرے کو فائدہ ہو اس کو اختیار کیا جائے جبکہ پاکستان میں ہر بندہ آپ کو سود حرام، سود حرام کی جگالی کرتا نظر آئے گا جبکہ کسی کے پاس عقلی دلیل نہیں ہوگی کہ سودی بینکاری نظام کس طرح معاشرے کیلئے غیر سود مند ہے۔ مزید برآں سود کے بغیر کوئی بینکاری نظام ہوہی نہیں سکتا، اسلامی بیکنگ کے نام پر جو کچھ چل رہا ہے وہ صرف عوام کو دھوکہ دینے کیلئے ہے، وہ بھی لین اور دین سود کے تحت ہی کرتے ہیں بس اس کیلئے ٹرمنالوجی انہوں نے مذہبی اختیار کرلی ہوئی ہے۔
سودی بینکاری نظام بڑے سرمایہ کاروں سے لے کر مڈل کلاس لوگوں تک سب کیلئے مفید ہے۔ مڈل کلاس لوگ سودی بینکاری نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت حد تک اپنے پیسے کو انفلیشن کی وجہ سے ڈی ویلیو ہونے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں پچھلے دس گیارہ ماہ سے 22 فیصد انٹرسٹ ریٹ چل رہا ہے۔ اگر ایک شخص کے پاس دس لاکھ روپے ہیں اور وہ اس کوکسی بھی کنونشنل بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ کی بجائے سیونگ اکاؤنٹ (ماہانہ منافع والے) میں رکھتا ہے۔ تو ہر ماہ اس کے اکاؤنٹ میں تقریباً 17 ہزار روپے جمع ہوتے رہیں گے۔ کیونکہ سٹیٹ بینک کی منیمم ڈیپازٹ ریٹ پالیسی ( ایم ڈی آر) کے تحت تمام کنونشل بینکس اپنے ڈیپازٹرز کو پالیسی ریٹ مائنس ایک / ڈیڑھ فیصد پر منافع دینے کے پابند ہیں۔ دوسری طرف اگر آپ سود کو حرام کہہ کر اپنا پیسہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں تو آپ کے پیسے پر بینک تو سود پر قرضہ دے کر منافع کمائے گا ہی مگر آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔۔ اگر آپ واقعی سود کو حرام سمجھنے کی ضد پر قائم ہیں تو پھر بہتر ہے کہ بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی پیسہ مت رکھیں کیونکہ آپ کے پیسے سے ہی بینک کا سودی نظام چلتا ہے اور اگر آپ اپنا پیسہ بینک کو سودی نظام کیلئے دے رہے ہیں تو آپ سودی کاروبار کو چلانے کے حصہ دار بن رہے ہیں، ایسے میں آپ کیلئے سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا پیسہ گھر میں گڑھا کھود کر اس میں رکھ لیں۔۔
پاکستان کا قومی بچت کا ادارہ بھی سودی نظام کی بدولت ہی قائم ہے اس میں مڈل کلاس لوگوں کے لئے بہت سی سکیمیں ہیں جو رسک فری ہیں۔ آپ اگر ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ جو کہ دس سال کی مدت کیلئے ہوتے ہیں اس میں اپنے پیسے رکھ دیتے ہیں تو آپ کو دس سال بعد تقریباً تین گنا رقم ملے گی۔ اسی طرح ماہانہ ، سالانہ سکیمز بھی دستیاب ہیں جو کہ بہت سے مڈل کلاس لوگوں کو فائدہ دے سکتی ہیں۔
پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر شخص کی "سود حرام ہے" کی جگالی کی وجہ سے عام لوگ، مڈل کلاس لوگ بینکوں اور قومی بچت جیسے اداروں سے منافع لینے سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان اداروں کا تو فائدہ ہوجاتا ہے مگر عام آدمی نقصان اٹھاتا ہے۔ مڈل کلاس لوگ جو پہلے ہی غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مارے ہوتے ہیں وہ بہ آسانی دستیاب سہولت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں پرانے زمانے کی سوچ کو چھوڑ کر جدید زمانے کے تقاضوں کو سمجھنا چاہئے اور پاکستان میں اس سوچ کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سودی نظام ایک سود مند نظام ہے اور اس سے ہر شخص کو جس قدر ہوسکے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/pnwTvy3/interest.jpg