سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں زبح ہورہی ہیں۔

xshadow

Minister (2k+ posts)
شہزادے جو لائن میں لگے ہیں انہیں ہوسکتا ہے کہ ریاست کی فکر ہو اور اسکی معیشت کی جسکی حالت انتہائی نازک ہے۔ مگر جو ولی عہد کی لائن میں لگے ہوئے ہیں انکی اصل پریشانی یہ ہے کہ بری معیشت بھی کم از کم سونے کے انڈا ضرور دیتی تھی۔ مگر موجودہ بادشاہ نے مرغیاں ہی زبہ کرنا شروع کردی ہیں۔

اس قسم کے حالات میں یہ بھی توقع کی جاسکتی ہے ولی عہد کی لائن سے لوگ نکل رہے ہیں کیونکہ مرغی کٹ رہیں ہے یا کٹ چکی ہیں' انکا گوشت کب تک چلے گا یہ پتا نہیں مگر اس میں کچھ حصہ اگر بچ بھی گیا تو پھر بھی گزارے کے لائق نہیں ہوگا۔

اسلیے ولی عہد ہوں یا شہزادے' ان میں سے صرف دو قسم کے افرد ہی اگلا بادشاہ بننے کے لیے تیار ہوں گے۔

پہلے تو وہ جو کٹتی ہوئی مرغی کو بچانے آئیں گے اور بادشاہ سے کہیں گے کہ حضور' آپ کو اگر کچھ کھانے کو نہیں مل رہا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ شہزادوں کی امیدیں ہی ختم کردیں۔ یا اگر آپکو کھانا نہیں آتا یا کھانے کو بچا ہی نہیں ہے تو مرغی ہم پھر بھی کٹنے نہیں دیں گے چاہے وہ انڈا سونے کا دے یا عام انڈا۔ ایسے شہزادے ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کو ایک آنکھ نہ بھائیں مگر ایسے شہزادے ولی عہدوں سے بھی ٹکرا جائیں گے کیونکہ مسئلہ بقاء کا ہے اور صرف ولی عہد یا بادشاہ بننے کی امید میں مرغیاں کٹوانا کسی طور بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اگرچہ کہ بادشاہ نے کچھ شہزادوں کو نوازنے اور شہبازنے کا انتظام بھی کررکھا ہے مگر اس سے گزارہ اگر ممکن ہوتا تو ایسے شہزادے وجود ہی نہ رکھتے۔ مگر کیا واقعی ایسے شہزادے موجود ہیں یا نہیں تو اسکا انکشاف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک بڑی خانہ جنگی ہو شہزادوں کے اندر جس میں ایک عدد ولی عہد بھی رگڑا جائے۔ لیکن اگر کوئی خانہ جنگی نہیں ہوتی تو یقیناً بادشاہ کی طوائفیں اور تھبنچی یہ بیانیہ بنائیں گے کہ ابھی بھی بادشاہ کا اثر و رثوق مضبوط ہے۔ مگر کیونکہ سازشی تھیوریاں پکانے والے بھی کئی لوگ ہیں جو بادشاہ سے خوش نہیں لہزا خانہ جنگی نہ ہونے کی وجہ وہ ڈر کو بتلاتے ہیں جو بادشاہ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد قائم کررکھا ہے۔ یہ تو تھے پہلی قسم کے لوگ جو بادشاہ بننے کے خواہاں ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے۔

دوسرے قسم کےشہزادے وہ ہیں جو کہ آپس میں دست و گریباں ہیں اگلا بادشاہ بننے کے کیونکہ اندر خانے انہیں یقین ہے کہ پھر بھی اتنے مزے لوٹ سکتے ہیں کہ انکی نسلیں سنور جائیں گی چاہے پھر باقی زندگی گمنامی میں ہی کیوں نہ کٹے۔ ایسے شہزادے بادشاہ کے ولی عہد بننے کے لیے ہی کوشاں ہیں مگر انہیں ہر گز یہ پسند نہیں کہ یہ بادشاہ تاحیات بادشاہ رہے۔ اسلیے اپنی اپنی وفاداریاں تو ثابت کررہے ہیں مگر ساتھ ساتھ بادشاہ کے کان بھی بھر رہے ہیں دوسرے شہزادوں کے خلاف تاکہ کسی طرح ولی عہد تو بن جائیں بعد میں دیکھیں گے کہ بادشاہ کون بنتا ہے۔ اب بادشاہ پر اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے چکر میں مرغیاں مزید کم ہوتی جارہی ہیں اور انڈے بھی جسکی وجہ سے دباو مزید پڑتا جارہا ہے کہ آخر اور کتنی مرغیاں کٹوانی ہیں صرف ولی عہد بننے کے لیے۔ اسلیے بادشاہ کا لمبا ہوتا ہوا اقتدار انہیں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر مجبوری ہے کہ وفاداری کی مثال بھی قائم کرنی ہے تاکہ جب وہ خود بادشاہ یا ولی عہد میں سے اگلے عہدے تک پہنچ جائیں تو انکے خلاف بغاوت نہ ہو یا اسکی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔

اس ساری صورت حال میں تباہی ان سب کو نظر آرہی ہے مگر وہ شہزادے جن میں بغاوت کے جراثیم ہیں وہ اور وہ جو بادشاہ کے وفادار ہیں ان سب میں اس تباہی کے بعد ایک موقع ہاتھ آنے کا انتظار ہے۔ دونوں قسم کے شہزادوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ بادشاہ پر کوئی حملہ کریں اور موقع کا انتظار کررہے ہیں کہ کب بادشاہ کی مرغیاں ختم ہوں اور بادشاہ کے پاس تنخواہین دینے کے بھی پیسے نہ ہوں۔ کیونکہ عوام نے ویسے ہی ٹیکس دینا کم کردیا ہے کیونکہ ٹیکس دینے کی ہمت ہی نہیں رہی۔ دوسرا جو ٹیکس جمع بھی ہورہا ہے وہ ناقافی ہوتا جارہا ہے کیونکہ دوسری طرف مہنگائی اور اشیاء کی عدم دستیابی کی وجہ سے بادشاہ اور شہزادوں کے خراجات مین دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور اسی ایک وجہ نے ہر قسم کے شہزادوں کو ولی عہد اور پھر بادشاہ بننے کی دوڑ میں لاکھڑا کیا ہے۔ جن میں سے کچھ تو بادشاہ کی معاشی پالیسیوں سے تنگ ہیں اور دوسرے اس لیے کہ بادشاہ انہین اتنا نہین کھلا رہا جتنا کہ وہ بادشاہ کو خوش رکھنے کے لیے مرغیاں کٹوا رہے ہیں الٹا اپنے بادشاہ بننے کی امید بھی کم ہوتی جارہی ہے۔

اس کش مکش میں بادشاہ اور اسکے وفاداروں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ انہیں بیرونی خطرہ نہین ہے۔ کیونکہ کسی دوسرے ملک کو کیا پڑی ہے کہ ایسے بادشاہ کو مارنے آئے جو انکا ایک پیسہ لگائے بغیر وہ کام کررہا ہے جسے کرنے کے لیے اچھا خاصہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر جہاں دس انکے مارے گا وہاں اپنے بھی تین چار مریں گے تو کیا فائدہ ہے۔ اسی لیے بادشاہ کے خلاف غلطی سے بھی کوئی ہرزا سرائی نہیں کی جارہی باقی ممالک سے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ایسا ہی بادشاہ کی ضرورت تھی باقی ممالک کو ورنہ اس سے پہلے کبھی اسی ریاست میں اس سے کہیں چھوٹی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور باقی ممالک صبح شام چیخ چیخ کر ہلکان ہوجاتے تھے۔ اسلیے دنیا کی تو بادشاہ کو ویسے ہی کوئی فکر نہیں اور کہیں غلطی سے کوئی بیرونی ملک بادشاہ سے ناراضی کا اظہار کربھی دے تو بادشاہ اب اتنا آگے جاچکا ہے کہ واپسی اسے معلوم ہے کہ ویسی نہیں ہوگی جیسے کے گزشتہ بادشاہوں کی ہوئی ہے یا کم از کم بادشاہ کو یہ ڈر ہے کہ بہت بری ہوگی۔ اسی لیے بادشاہ صاحب کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا مگر کیونکہ قانون قدرت ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ اسی ردعمل کے نتیجے میں شہزادوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔

اب معاملہ کہاں تک جائیگا۔ کیا بادشاہ اپنے اقتدار کو طول دے سکے گا؟ یا کتنا دے سکے گا۔ کیا شہزادے اور ولی عہد جو کہ انتظار میں ہیں وہ کب تک یہ بادشاہ کی جی حضوری کرتے رہیں گے؟ کیا بادشاہ خود سے ولی عہد چن سکے گا جو پچھلے بادشاہوں کو محفوظ رکھ سکے؟ کیا کہیں کوئی بادشاہ بن کر غیر ارادی یا ارادی طور پر بدل نہ جائے اور ساری گارینٹیاں دھری کی دھری نہ رہ جائیں؟ کیا اگلا بادشاہ جو نہ جانے کب بنے وہ بننے تک ریاست بھی رہے گی کیونکہ زیادہ تر اسکی مرغیاں تو رہی نہین بلکہ اب پلی ہوئی بھینسیں بھی بیچنے کی تیاری ہورہی ہے۔ کیا بادشاہ ایک آسان رستہ بھی چن سکتا ہے کہ خود اس بوجھ سے آزاد کرکے گمنامی میں چلا جائے جیسے اس سے پچھلے بادشاہ کرتے رہے ہیں۔

ان تمام سوالات کا جواب ہے جو اللہ کو منظور۔
آئیے ہم سب اللہ سے دعا کریں کہ جو بھی ہو وہ ریاست کے لیے اچھا ہو۔ لوگ صرف اپنی مرضی بتا سکتے ہیں مگر انہیں اسکا اختیار نہیں۔ عدالت جاسکتے ہیں مگر عدالت کی ساکھ برائے نام ہے۔ لڑ سکتے ہیں مگر بادشاہ سے لڑنے سے نقصان آخر قوم کا ہوگا۔ ایسی صورت میں اللہ سے گزارش ہے کہ عقلوں پر بند تالے کھول دے۔ کہیں بھی کسی میں کوئی اچھائی ہے تو اسے اسکا پاس رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ لنگڑا لولا ہی سہی نظام بحال ہوجائے۔ شکر ادا کریں تاکہ اللہ مزید آسانیاں پیدا فرمائے اور بہتر نظام کی طرف اس قوم کو لیجائے۔
آمین
 
Last edited by a moderator:

bahmad

Minister (2k+ posts)
JB tk public bahir Nahi atti.....sultanaat ho ya sultan, kingdom ho ya king, prince ho princess subb waisye hi payroll pr kaam krainn gy.........aur public JB frustrate Hoti ha bloody hell bjaye fight for your right k sucide ki traf nikl jatti ha......
 

bahmad

Minister (2k+ posts)
شہزادے جو لائن میں لگے ہیں انہیں ہوسکتا ہے کہ ریاست کی فکر ہو اور اسکی معیشت کی جسکی حالت انتہائی نازک ہے۔ مگر جو ولی عہد کی لائن میں لگے ہوئے ہیں انکی اصل پریشانی یہ ہے کہ بری معیشت بھی کم از کم سونے کے انڈا ضرور دیتی تھی۔ مگر موجودہ بادشاہ نے مرغیاں ہی زبہ کرنا شروع کردی ہیں۔

اس قسم کے حالات میں یہ بھی توقع کی جاسکتی ہے ولی عہد کی لائن سے لوگ نکل رہے ہیں کیونکہ مرغی کٹ رہیں ہے یا کٹ چکی ہیں' انکا گوشت کب تک چلے گا یہ پتا نہیں مگر اس میں کچھ حصہ اگر بچ بھی گیا تو پھر بھی گزارے کے لائق نہیں ہوگا۔

اسلیے ولی عہد ہوں یا شہزادے' ان میں سے صرف دو قسم کے افرد ہی اگلا بادشاہ بننے کے لیے تیار ہوں گے۔

پہلے تو وہ جو کٹتی ہوئی مرغی کو بچانے آئیں گے اور بادشاہ سے کہیں گے کہ حضور' آپ کو اگر کچھ کھانے کو نہیں مل رہا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ شہزادوں کی امیدیں ہی ختم کردیں۔ یا اگر آپکو کھانا نہیں آتا یا کھانے کو بچا ہی نہیں ہے تو مرغی ہم پھر بھی کٹنے نہیں دیں گے چاہے وہ انڈا سونے کا دے یا عام انڈا۔ ایسے شہزادے ہوسکتا ہے کہ بادشاہ کو ایک آنکھ نہ بھائیں مگر ایسے شہزادے ولی عہدوں سے بھی ٹکرا جائیں گے کیونکہ مسئلہ بقاء کا ہے اور صرف ولی عہد یا بادشاہ بننے کی امید میں مرغیاں کٹوانا کسی طور بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اگرچہ کہ بادشاہ نے کچھ شہزادوں کو نوازنے اور شہبازنے کا انتظام بھی کررکھا ہے مگر اس سے گزارہ اگر ممکن ہوتا تو ایسے شہزادے وجود ہی نہ رکھتے۔ مگر کیا واقعی ایسے شہزادے موجود ہیں یا نہیں تو اسکا انکشاف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ایک بڑی خانہ جنگی ہو شہزادوں کے اندر جس میں ایک عدد ولی عہد بھی رگڑا جائے۔ لیکن اگر کوئی خانہ جنگی نہیں ہوتی تو یقیناً بادشاہ کی طوائفیں اور تھبنچی یہ بیانیہ بنائیں گے کہ ابھی بھی بادشاہ کا اثر و رثوق مضبوط ہے۔ مگر کیونکہ سازشی تھیوریاں پکانے والے بھی کئی لوگ ہیں جو بادشاہ سے خوش نہیں لہزا خانہ جنگی نہ ہونے کی وجہ وہ ڈر کو بتلاتے ہیں جو بادشاہ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد قائم کررکھا ہے۔ یہ تو تھے پہلی قسم کے لوگ جو بادشاہ بننے کے خواہاں ہیں جن سے بغاوت کی بو آتی ہے۔

دوسرے قسم کےشہزادے وہ ہیں جو کہ آپس میں دست و گریباں ہیں اگلا بادشاہ بننے کے کیونکہ اندر خانے انہیں یقین ہے کہ پھر بھی اتنے مزے لوٹ سکتے ہیں کہ انکی نسلیں سنور جائیں گی چاہے پھر باقی زندگی گمنامی میں ہی کیوں نہ کٹے۔ ایسے شہزادے بادشاہ کے ولی عہد بننے کے لیے ہی کوشاں ہیں مگر انہیں ہر گز یہ پسند نہیں کہ یہ بادشاہ تاحیات بادشاہ رہے۔ اسلیے اپنی اپنی وفاداریاں تو ثابت کررہے ہیں مگر ساتھ ساتھ بادشاہ کے کان بھی بھر رہے ہیں دوسرے شہزادوں کے خلاف تاکہ کسی طرح ولی عہد تو بن جائیں بعد میں دیکھیں گے کہ بادشاہ کون بنتا ہے۔ اب بادشاہ پر اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے چکر میں مرغیاں مزید کم ہوتی جارہی ہیں اور انڈے بھی جسکی وجہ سے دباو مزید پڑتا جارہا ہے کہ آخر اور کتنی مرغیاں کٹوانی ہیں صرف ولی عہد بننے کے لیے۔ اسلیے بادشاہ کا لمبا ہوتا ہوا اقتدار انہیں بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر مجبوری ہے کہ وفاداری کی مثال بھی قائم کرنی ہے تاکہ جب وہ خود بادشاہ یا ولی عہد میں سے اگلے عہدے تک پہنچ جائیں تو انکے خلاف بغاوت نہ ہو یا اسکی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔

اس ساری صورت حال میں تباہی ان سب کو نظر آرہی ہے مگر وہ شہزادے جن میں بغاوت کے جراثیم ہیں وہ اور وہ جو بادشاہ کے وفادار ہیں ان سب میں اس تباہی کے بعد ایک موقع ہاتھ آنے کا انتظار ہے۔ دونوں قسم کے شہزادوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ بادشاہ پر کوئی حملہ کریں اور موقع کا انتظار کررہے ہیں کہ کب بادشاہ کی مرغیاں ختم ہوں اور بادشاہ کے پاس تنخواہین دینے کے بھی پیسے نہ ہوں۔ کیونکہ عوام نے ویسے ہی ٹیکس دینا کم کردیا ہے کیونکہ ٹیکس دینے کی ہمت ہی نہیں رہی۔ دوسرا جو ٹیکس جمع بھی ہورہا ہے وہ ناقافی ہوتا جارہا ہے کیونکہ دوسری طرف مہنگائی اور اشیاء کی عدم دستیابی کی وجہ سے بادشاہ اور شہزادوں کے خراجات مین دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور اسی ایک وجہ نے ہر قسم کے شہزادوں کو ولی عہد اور پھر بادشاہ بننے کی دوڑ میں لاکھڑا کیا ہے۔ جن میں سے کچھ تو بادشاہ کی معاشی پالیسیوں سے تنگ ہیں اور دوسرے اس لیے کہ بادشاہ انہین اتنا نہین کھلا رہا جتنا کہ وہ بادشاہ کو خوش رکھنے کے لیے مرغیاں کٹوا رہے ہیں الٹا اپنے بادشاہ بننے کی امید بھی کم ہوتی جارہی ہے۔

اس کش مکش میں بادشاہ اور اسکے وفاداروں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ انہیں بیرونی خطرہ نہین ہے۔ کیونکہ کسی دوسرے ملک کو کیا پڑی ہے کہ ایسے بادشاہ کو مارنے آئے جو انکا ایک پیسہ لگائے بغیر وہ کام کررہا ہے جسے کرنے کے لیے اچھا خاصہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر جہاں دس انکے مارے گا وہاں اپنے بھی تین چار مریں گے تو کیا فائدہ ہے۔ اسی لیے بادشاہ کے خلاف غلطی سے بھی کوئی ہرزا سرائی نہیں کی جارہی باقی ممالک سے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ایسا ہی بادشاہ کی ضرورت تھی باقی ممالک کو ورنہ اس سے پہلے کبھی اسی ریاست میں اس سے کہیں چھوٹی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور باقی ممالک صبح شام چیخ چیخ کر ہلکان ہوجاتے تھے۔ اسلیے دنیا کی تو بادشاہ کو ویسے ہی کوئی فکر نہیں اور کہیں غلطی سے کوئی بیرونی ملک بادشاہ سے ناراضی کا اظہار کربھی دے تو بادشاہ اب اتنا آگے جاچکا ہے کہ واپسی اسے معلوم ہے کہ ویسی نہیں ہوگی جیسے کے گزشتہ بادشاہوں کی ہوئی ہے یا کم از کم بادشاہ کو یہ ڈر ہے کہ بہت بری ہوگی۔ اسی لیے بادشاہ صاحب کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا مگر کیونکہ قانون قدرت ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ اسی ردعمل کے نتیجے میں شہزادوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے۔

اب معاملہ کہاں تک جائیگا۔ کیا بادشاہ اپنے اقتدار کو طول دے سکے گا؟ یا کتنا دے سکے گا۔ کیا شہزادے اور ولی عہد جو کہ انتظار میں ہیں وہ کب تک یہ بادشاہ کی جی حضوری کرتے رہیں گے؟ کیا بادشاہ خود سے ولی عہد چن سکے گا جو پچھلے بادشاہوں کو محفوظ رکھ سکے؟ کیا کہیں کوئی بادشاہ بن کر غیر ارادی یا ارادی طور پر بدل نہ جائے اور ساری گارینٹیاں دھری کی دھری نہ رہ جائیں؟ کیا اگلا بادشاہ جو نہ جانے کب بنے وہ بننے تک ریاست بھی رہے گی کیونکہ زیادہ تر اسکی مرغیاں تو رہی نہین بلکہ اب پلی ہوئی بھینسیں بھی بیچنے کی تیاری ہورہی ہے۔ کیا بادشاہ ایک آسان رستہ بھی چن سکتا ہے کہ خود اس بوجھ سے آزاد کرکے گمنامی میں چلا جائے جیسے اس سے پچھلے بادشاہ کرتے رہے ہیں۔

ان تمام سوالات کا جواب ہے جو اللہ کو منظور۔
آئیے ہم سب اللہ سے دعا کریں کہ جو بھی ہو وہ ریاست کے لیے اچھا ہو۔ لوگ صرف اپنی مرضی بتا سکتے ہیں مگر انہیں اسکا اختیار نہیں۔ عدالت جاسکتے ہیں مگر عدالت کی ساکھ برائے نام ہے۔ لڑ سکتے ہیں مگر بادشاہ سے لڑنے سے نقصان آخر قوم کا ہوگا۔ ایسی صورت میں اللہ سے گزارش ہے کہ عقلوں پر بند تالے کھول دے۔ کہیں بھی کسی میں کوئی اچھائی ہے تو اسے اسکا پاس رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ لنگڑا لولا ہی سہی نظام بحال ہوجائے۔ شکر ادا کریں تاکہ اللہ مزید آسانیاں پیدا فرمائے اور بہتر نظام کی طرف اس قوم کو لیجائے۔
آمین
Ralph Wiggum Easter GIF