Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
اسی کی دہائی میں کراچی کے ایک پراپرٹی ڈیلر نے اپنے مختصر سے پرائیویٹ حلقے میں شامل 5 فیملی فرینڈز کے ساتھ سوینگر کلب شروع کیا جس میں بیویاں ایکسچینج کی جاتی تھیں۔ یہ کلب اتنا مشہور ہوا کہ اس شخص کو ایک بڑا گھر لے کر ہر سنیچر کی رات 70 سے زائد مہمانوں کیلئے انتظامات کرنا پڑ گئے۔
ویسے تو اس کے مہمانوں میں ہائی پروفائل لوگ شامل تھے لیکن فوجی افسروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ میزبان کے خٰیال میں اس کی وجہ ضیا کی بظاہر مذہبی پالیسیاں تھیں جن کے ردعمل میں فوجی افسروں نے یہ ایکٹیویٹیز شروع کیں۔
وہ شخص تو کچھ عرصے بعد آسٹریلیا چلا گیا لیکن وہ بتاتا ہے کہ اس کیلئے یہ بات حیران کن تھی جب اسے پتہ چلا کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر جہاں چھاؤنی تھی، وہاں ایسے پرائیویٹ کلب قائم ہوچکے تھے۔
میں اس شخص کی اس توجیح سے اتفاق نہیں کرتا کہ فوجی افسران وائف ایکسچینج کا کام ضیا کی پالیسیوں کے ردعمل میں کرنا شروع ہوئے۔ اگر آپ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بہت سے فوجی افسران اپنی بیگمات کے ساتھ جنرل یحیی کے گھر آتے اور واپسی پر اکیلے واپس جاتے۔
فوجی جرنیلوں پر جتنی بھاری ذمے داریاں ہوتی ہیں، جتنی کٹھن ڈیوٹی ہوتی ہے، اس کیلئے لازم ہے کہ وہ لال پری کا سہارا لیں اور ساتھیوں کے ساتھ بیگمات تبدیل کرکے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔
یقینناً جب ہم راتوں کو سو رہے ہوتے ہیں، دور کہیں کینٹ کے علاقے کے پوش گھر میں ادلا بدلی ہورہی ہوتی ہے تاکہ جنرل صاحب اگلے دن تروتازہ ہو کر اٹھیں!!!
https://twitter.com/x/status/1829848658541461887
ویسے تو اس کے مہمانوں میں ہائی پروفائل لوگ شامل تھے لیکن فوجی افسروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ میزبان کے خٰیال میں اس کی وجہ ضیا کی بظاہر مذہبی پالیسیاں تھیں جن کے ردعمل میں فوجی افسروں نے یہ ایکٹیویٹیز شروع کیں۔
وہ شخص تو کچھ عرصے بعد آسٹریلیا چلا گیا لیکن وہ بتاتا ہے کہ اس کیلئے یہ بات حیران کن تھی جب اسے پتہ چلا کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر جہاں چھاؤنی تھی، وہاں ایسے پرائیویٹ کلب قائم ہوچکے تھے۔
میں اس شخص کی اس توجیح سے اتفاق نہیں کرتا کہ فوجی افسران وائف ایکسچینج کا کام ضیا کی پالیسیوں کے ردعمل میں کرنا شروع ہوئے۔ اگر آپ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بہت سے فوجی افسران اپنی بیگمات کے ساتھ جنرل یحیی کے گھر آتے اور واپسی پر اکیلے واپس جاتے۔
فوجی جرنیلوں پر جتنی بھاری ذمے داریاں ہوتی ہیں، جتنی کٹھن ڈیوٹی ہوتی ہے، اس کیلئے لازم ہے کہ وہ لال پری کا سہارا لیں اور ساتھیوں کے ساتھ بیگمات تبدیل کرکے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں۔
یقینناً جب ہم راتوں کو سو رہے ہوتے ہیں، دور کہیں کینٹ کے علاقے کے پوش گھر میں ادلا بدلی ہورہی ہوتی ہے تاکہ جنرل صاحب اگلے دن تروتازہ ہو کر اٹھیں!!!
https://twitter.com/x/status/1829848658541461887