سیاست سے پاک

سیاست سے پاک

ذرا غور کریں تو کسی بھی ریاست کا تصور سیاست کے بغیر نا ممکن نظر آتا ہے - یہ سیاست ہی ہے جس کی مدد سے حکومتیں وجود میں آتی ہیں جو ریاست میں بسنے والے عوام کے امور کی دیکھ بھال کے لیے قوانین وضع کرتی ہیں اور ان قوانین کو ریاست میں موجود اداروں کی مدد سے نافذ کرتی ہیں

غرض یہ کہ سیاست مجموعی طور پر عوام کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں پر براہراست اثرانداز ہوتی ہے اور حکومتیں جو سیاسی عمل سے وجود میں آتی ہیں وہ عوام کی زندگی کے اومرونواہی مرتب کر کے اسے نہ صرف نافذ کرتی ہیں بلکہ عوام کی فلاح کے لیے ایسے منصوبے بناتی ہیں جو ان کے بہترحال اور روشن مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں۔

بحثیت مسلمان اگرہم حضرت محمد
کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ہمیں مدینہ منورہ کی صورت میں نا صرف ایک ریاست کا وجود نظر آتا ہے بلکہ اس ریاست میں بسنے والے عوام کے امور کی دیکھ بھال کے لیے قوانین وضع کرتی حکومت اور ان قوانین کو نافذ کرتے ریاستی اداروں کے خدوخال بھی واضع نظر آتے ہیں۔

غرض یہ کہ مدینہ منورہ عملی طور پر وہ پہلی ریاست ہمیں نظر آتی ہے جس میں عوام کی زندگی کے اوامرونواہی کو ﷲ
کے اوامرونواہی کے مطابق مرتب دیا گیا اوراسے ریاستی اداروں کی مدد سے نافذ کیا گیا- وصال رسولﷲ کے بعد خلفہ راشدین نے اس سلسلے کو آکے بڑھایا اور ﷲ کے اوامرونواہی کے مطابق ہی عوام کے امور کی دیکھ بھال کرتے رہے جس کے ثمرات سے تیزی سے پھیلتی ریاست میں ہر مذہب کے ماننے والے مستفید ہوتے رہے۔ پھر خلفہ راشدین کے بعد بھی مسلمانوں کےعروج کا یہ سلسلہ صدیوں پر محیط نظر آتا ہے۔

آج ۲۰۱۳ میں اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو صورتحال کافی مختلف نظر آتی ہے۔ آج جمہوریت کا دورہے۔ جس میں کچھ ریاستوں کا مذہب تو اسلام ہے لیکن عوام کے امور کی دیکھ بھال کے لیے قوانین کو ﷲ
کے اوامرونواہی سے اخذ نہیں کیا جاتا - حکومت کی باگ دوڑ چلانے کی خواہشمند سیاسی جماعتیں سیکولرجماعت ہونے پر فخر کرتی ہیں اور دینی جماعتیں جو سیاست میں پنجہ آزماتی کرتی نظر آتی ہیں ان کے بھی سیاسی داوپیچ سیکولر جماعتوں سے مختلف نہیں ہیں

اور وہ جماعتیں جو آج مسلمانوں میں اسلامی طرززندگی کو پھر سے اجاگر کرنا چاہتی ہیں وہ بھی اس بات میں فخرمحسوس کرتی ہیں کے وہ ایک "غیر سیاسی جماعت" یا "سیاست سے پاک جماعت" ہیں حلانکہ یہ کہتے ہویے وہ اپنی ایک آنکھ بند کر لیتی ہیں جس سے حضرت محمد
کی وہ تعلیمات نظرآتی ہیں جن سے ریاستی امورکے قوانین کو ﷲ کے اوامرونواہی کے مطابق مرتب دیا جا سکتا ہے اور جن قوانین کا اثر عوام کی اجتماعی زندگیوں پر براہراست ہوتا ہے - اب ان جماعتوں کی تعلیمات کا محور صرف نماز، روزہ، زکات، حج اور صدکات سے زیادہ کچھ نہیں . جبکہ اگر دیکھا جاہے تو نمازکا قیام اور زکات کے نظام کا تصور بھی کسی ریاست کے بغیر ادھورا ہے۔

اب یہ سیاست سے پاک جماعتیں اسلامی طرز زندگی کو پھر سے شخص کی انفرادی امور میں تو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں لیکن اجتماعی زندگی پر وہ اثر نہیں کر پاتیں جن سے وہ ثمرات حاصل کے جاسکتے ہیں جن کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے۔