سینیٹ کمیٹی میں سڑک کی تعمیر کے دوران ٹول ٹیکس وصولی کا انکشاف

screenshot_1741799465126.png



اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ سڑک اور ٹول پلازہ کی تعمیر کے دوران ہی آنے جانے والی گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کو تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت کی ہے اور 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔

سینیٹر پرویز رشید کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عمر کوٹ کی سڑک کی تعمیر میں تاخیر اور ٹول ٹیکس وصولی کے معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ سینیٹر پونجو مل بھیل نے کمیٹی کو بتایا کہ 17 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر 4 سال سے جاری ہے، جبکہ یہ منصوبہ 6 ماہ میں مکمل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سڑک تھر کول کی ٹریفک کے لیے بنائی جا رہی تھی، لیکن حکم امتناع کے بعد حکومت نے دوسرے راستے بنالئے۔ انہوں نے اس سڑک کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتے ہوئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا۔

سینیٹر پونجو مل بھیل نے کہا کہ این ایچ اے نے پرانی پلیاں استعمال کرکے سڑک بنائی ہے، جبکہ اگر سڑک کی کشادگی کی جا رہی ہے تو پرانی پلیاں کیسے استعمال ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔

این ایچ اے کے حکام نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ جہاں کرپشن ہوئی ہے، وہاں کارروائی کی جائے گی۔ سیکریٹری مواصلات نے بتایا کہ این ایچ اے کسی بھی سڑک کی تعمیر کا کام صوبائی حکومت کی منظوری کے بعد شروع کرتی ہے، اور اس کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری بھی درکار ہوتی ہے۔

چیئرمین این ایچ اے نے اجلاس میں بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ایم 6 موٹروے کا منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کے تحت ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کی خواہش ہے کہ ایم 6 کے لیے دونوں تجاویز پر غور کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی سے کوئٹہ اور چمن روڈ کا ٹینڈر جاری ہے، اور جاری منصوبوں کے لیے بجٹ جاری کیا گیا ہے۔ تاہم، گزشتہ بجٹ کی نئی اسکیموں کو شروع نہیں کیا گیا، اور این ایچ اے بجٹ کی کمی کے باعث کچھ اسکیمیں ڈراپ کرنے پر مجبور ہے۔

اجلاس میں پنجاب حکومت کے رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پنجاب حکومت نے یہ منصوبہ پاکستان پوسٹ کے ذریعے شروع کرنا چاہا تھا، لیکن پاکستان پوسٹ اسے شروع ہی نہ کر سکی۔ پاکستان پوسٹ کے حکام نے بتایا کہ 30 سے 35 لاکھ پے آرڈرز دینے تھے، لیکن فراہم کیے گئے زیادہ تر پتے درست نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ عملے نے 3 دن بارش میں ڈیوٹی کی اور ایک لاکھ 60 ہزار لفافے مستحقین تک پہنچائے، لیکن تیسرے دن بغیر کسی وجہ کے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔

سیکریٹری مواصلات نے کہا کہ پاکستان پوسٹ نے آئی ٹی کمپنی کو کام آؤٹ سورس کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کو تقسیم نہ کرکے پاکستان پوسٹ نے 87 کروڑ روپے ضائع کر دیے، اور پاکستان پوسٹ کی قیادت میں پختہ ارادے کا فقدان ہے۔

قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پنجاب حکومت کے حکام کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی کے معاملے پر تفصیلی بحث کی جا سکے۔
 

Back
Top