اس وقت ملک میں ایک ایسا شخص حکمران ہے جو ماضی میں ایک پلے بواۓ کی حیثیت رکھتا تھا . جیسا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے حکمران وقت صرف انڈر وائر میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ننگی کم و بیش ہے . دونو بیچ پر ٹہل رہے ہیں . اس کے بعد حکمران وقت کی یہ ہی گرل فرینڈ اس پر ایک ناجائز بچی کا باپ ہونے کا الزام لگاتی ہے اور حکمران وقت عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوتا اور عدالت یہ فیصلہ دیتی ہے کہ حکمران وقت ایک ناجائز بچی کا باپ ہے . وہ بچی بعد میں حکمران وقت کے بچوں کے ساتھ شفٹ ہو جاتی ہے مطلب بہن بھائی ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں .
بات یہ ہے ایسے شخص کے حکمران وقت بننے سے سماج پر ایک سیکس کی لہر دوڑ جاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ بغیر نکاح کے سیکس کرنا کوئی غلط بات نہیں . لوگوں میں بے راہ روی میں اضافہ ہوتا ہے اور اس طرح سیکس کا جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے . ملک میں خواتین غیر محفوظ ہو جاتی ہیں اور حکمران وقت کے نقش قدم پر چلتے ہوے لوگ خواتین کی عصمت دری شروع کر دیتے ہیں . نپولین نے کہا تھا اگر شیروں کا سردار کتا ہو گا تو وہ کتوں کی طرح لڑیں گے اگر کتوں کا سردار شیر ہو گا تو وہ شیر کی طرح لڑیں گے . اگر قوم کا سردار ناجائز بچی کا باپ ہو گا تو قوم میں بھی ناجائز لوگوں کے پیدا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہو گا مطلب زنا کو ترقی ملے گی . ایسے شخص کو حکمران وقت بنانا یہودیوں کی دلی خواہش تھی . یہود چاہتے تھے کہ اگر کسی قوم کو بغیر جنگ لڑے شکست دینی ہو تو اس میں ایک ایسا انسان حکمران وقت ہونا چاہئیے جو بذات خود ایک ناجائز بچی کا باپ ہو. یہودی سازش کامیاب ہو گئی اور ملک میں اخلاقیات کا جنازہ اٹھا دیا گیا . اب ایک طرف لوگ حکمران وقت کے نقشے قدم پر چلنا چاہتے ہیں . وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سیکس عام ہو جاۓ اس لیے ان کے اندر کا حیوان جاگ گیا ہے . اور ایسی سوچ کے تحت ملک میں روز بروز سیکس جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے . سننے میں آیا ہے کہ موٹر وے پر ظلم کا شکار ہونے والی ماں تحریک انصاف کی سپورٹر تھی اور ناجائز بچی کے باپ کی حامی تھی . اگر اس عورت کو اس درندے کی حیوانیت کا شکار ہونے والی خواتین کا حال معلوم ہوتا تو وہ اس درندے کی کبھی حمایت نہ کرتی . لیکن جب ہم ایک درندے کے افعال کو جائز قرار دیتے ہیں تو ہمیں بھی انہی افعال کا سامنا کرنا پڑتا ہے . جب ہم اس ملک سے اخلاقی قدریں تباہ کرتے ہیں اور برباد ہونے والی خواتین کو ٹریش سمجھتے ہیں تو ہم اپنے لیے بھی اس جہنم کا دروازہ کھول لیتے جہاں جنسی جرائم کی انتہا ہوتی ہے . اس ملک کی خواتین کو بہت شوق تھا تبدیلی کا اب وہ خود اس تبدیلی کے ہاتھوں برباد ہوتی نظر آتی ہیں .