شہباز حکومت میں آٹو انڈسٹری مشکل میں،گاڑیوں کی فروخت میں 80 فیصد کی بڑی کمی

16shebabautondysustr.jpg

ملکی معاشی و سیاسی غیر یقینی صورتحال کے باعث کاروں، جیپ وغیرہ ہلکی گاڑیوں کی فروخت اپریل میں سالانہ بنیادوں پر 80 فیصد کم ہو کر 4 ہزار 463 یونٹس رہ گئی۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 10 مہینے میں گاڑیوں کی فروخت آدھی رہ گئی جو گزشتہ برس کے اسی مہینے کے 2 لاکھ 27 ہزار 995 یونٹس کے مقابلے میں ایک لاکھ 14 ہزار 868 ریکارڈ کی گئی۔

اپریل میں ماہانہ بنیادوں پر فروخت 52 فیصد گری۔کورونا وبا کے سبب مئی 2020 میں لاک ڈاؤن کے بعد سے اس کیٹگری میں یہ کم ترین ماہانہ فروخت ہے۔

پاکستان میں بننے والی گاڑیوں کی قیمت اور معیار سے ناخوش بعض شہری جاپان سے منگوائی جانے والی استعمال شدہ گاڑیوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور اب ریگولیٹری ڈیوٹی کی معیاد ختم ہونے کے بعد ایسے افراد کو امید ہے کہ پرانی امپورٹڈ گاڑیوں کی قیمتیں میں کمی ہو سکتی ہے۔

وفاقی حکومت نے گذشتہ سال جون میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیش نظر درآمدات کو محدود کرنے کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا کر 100 فیصد کر دی تھی، اس ایس آر او کی معیاد 31 مارچ 2023 تک تھی جس پر تاحال نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔

ملک میں نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے پاما کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو پاکستان میں گذشتہ سال مارچ کے مقابلے رواں سال مارچ میں چھوٹی گاڑیوں کی فروخت نصف سے بھی کم رہ گئی ہے جس کی وجہ قیمتوں میں بھاری اضافہ ہے۔