
مرکزی حکومت کی طرف سے ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے فیصلے بارے مختلف قانونی ماہرین کی طرف سے اپنی رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔
ماہر قانون حافظ احسان کا کہنا تھا کہ کسی کسی پارٹی پر آرٹیکل 17 کے تحت پابندی یا کسی سیاسی رہنما پر آرٹیکل 6 لگانا ہو اس کا فیصلہ کابینہ کرے گی اور معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آئین کا آرٹیکل 17 واضح ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص سیاسی جماعت بنا سکتا ہے یا اس کا حصہ بن سکتا ہے تاہم اس کی کچھ شرائط ہیں۔
حافظ احسان کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل کے سب آرٹیکل 2 میں بتایا گیا ہے کہ اگر مرکزی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگاتی ہے تو اس کی دو بنیادیں ہو سکتی ہیں جس میں ایک فارن فنڈڈ پارٹی ہونا اور دوسرا ملکی مفاد کیخلاف کام کرنا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد 15 دنوں کے اندر حکومتی ڈکلیریشن سپریم کورٹ آف پاکستان بھیجا جائیگا اور اس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔
الیکشن کمیشن کو سیکشن 212 اختیار دیتا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرے جس میں بیرونی فنڈنگ شامل ہے تو وہ وفاقی حکومت کو ریفرنس بھجوائے گا جس کی توثیق کر کے 7 دنوں میں سپریم کورٹ بھیجا جائیگا جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ نتائج خطرناک ہیں جو سیکشن 213 میں ہے کہ سپریم کورٹ اگر وفاقی حکومت کے ریفرنس کی توثیق کر دے تو اس سیاسی جماعت کے سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلی اراکین وبلدیاتی نمائندوں کی رکنیت معطل ہو جائیگی۔
ماہر قانون اسد رحیم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کے متعلق ریفرنس دائر کرنا حکومتی صوابدید ہے، سپریم کورٹ کو اسی آرٹیکل کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فیصلہ کرے گی کہ کیا یہ سیاسی جماعت نے ملکی سالمیت کیخلاف کام کر رہی ہے تو اسے تحلیل کیا جا سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ اس سیاسی جماعت بارے کہہ چکی ہے کہ مخصوص نشستوں کے بعد یہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہو گی۔
حکومت نے ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جو بھی نکات رکھے ہیں چاہے وہ سائفر سے متعلق ہوں یا کسی اور سے تو عدالت نے اسے کافی حد تک مسترد کر دیا ہے۔ میرے خیال میں جب ملک کی اتنی بڑی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ موجودہ حکومت کا شاید سب سے مہم فیصلہ ہو، آرٹیکل 17 کے مطابق آپ ملکی سالمیت کیخلاف ہیں تو عدالت سیاسی جماعت تحلیل کرنے کا فیصلہ کرے گی۔
اسد رحیم کا کہنا تھا ریفرنس دائر کرنے میں تاخیر سے مسائل پیدا ہونگے، مخصوص نشستوں پر فیصلے کے بعد حکومت سخت اقدامات کر رہی ہے اور یہ وہ حکومت ہے کہ الیکشن کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ عوام انہیں نہیں چاہتے۔ حکومت نے مخصوص نشستوں کے کیس کا جواب سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے دیا ہے جسے بھرپور ووٹ ملے، تو یہ عوام کی رائے بھی کالعدم قرار دیدیں جو پارلیمانی نظام کیلئے انتہائی خطرناک ہو گا۔
معروف قانون دان ورہنما پی پی پی اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی مس لیڈ کر رہا ہے، یہ مذاق ہے، اس کا کیا دفاع ہو گا؟ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور اس لیے دائر کیا گیا کیونکہ عمران خان ہر کیس میں بری ہو رہا ہے۔ کچھ اور نہ ملنے پر اس طرف چل پڑے ہیں، فارم 45 ان کے گلے میں گھنٹی کی طرح بندھی ہے جس سے یہ بھاگنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا الیکشن کمیشن نے جب فارم 45 ویب سائٹ پر لگائی اور ہٹائی وہ امیدواروں کیلئے ایک کلیدی فارم ہےجس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوازشریف ہار گئے تھے تو اب یہ انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرینگے۔ الیکشن فارم 47 سے جیت گئے ہیں تاہم اس ریفرنس سے سب کچھ باہر آجائیگا، جس کیخلاف یہ ڈاکومنٹس فائل کریں گے وہ اپنی دستاویزات سامنے لاے گا تو سب ظاہر ہو جائیگا۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس دائر کرنے کا کہنے والا بہت بیوقوف ہے، ان کی سیاست سکروٹنی کے اندر آ جائے گی، پیپلزپارٹی سے اس معاملے پر ن لیگ بات کرے گی تو مشورہ دینگے کہ یہ لوگ جال میں پھنس رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے وزراء کی طرف سے ایک دو دن میں اس پریس کانفرنس کی تردید ہو جائے گی، وکیل تو ان کے پاس اچھے ہیں لیکن ان کو ہوا کیا ہے سمجھ نہیں آرہا؟
سینیٹر جے یو آئی وماہر قانون کامران مرتضیٰ نے کہا کوئی سیاسی جماعت بنانا اور اس کا برقرار رہنا بنیادی حق ہے، آرٹیکل 6 جیسے حکومت سمجھ رہی ہے ویسے استعمال نہیں ہو سکتا، نہ ہی کسی جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے، یہ ادھار مانگ کر شرمندہ ہوں گے۔ حکومت جنہیں ثبوت کہہ رہی ہے اس کا مجھے علم نہیں کہ وہ ہیں یا نہیں تاہم جنہیں ثبوت کہا جا رہا ہے اس کی بنیاد پر تو 14 مہینے میں کوئی سزا نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا فرض کریں کوئی ثبوت ہے تو کسی کی پراپرٹی پر حملہ یا پھر فورسز کے کام میں مداخلت سے متعلق ہونگے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پر آرٹیکل 6 لگا دیا جائے یا سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جائے۔ ایک سوال پر کہا مرکزی حکومت کے پاس آرٹیکل 6 کے تحت عدالت کو ریفرنس بھیجنے کا اختیار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ آرٹیکل 6 سیاسی جماعتوں پر لگانا شروع کر دیں۔
ماہر قانون ورہنما پی ٹی آئی علی ظفر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں کہا قانون کے تحت یہ سارے معاملات دیکھے جاتے ہیں، حکومت ناممکن بات کر رہی ہے، ایسی کوئی حرکت ہوئی تو عدالتیں موجود ہیں اور ہم بھی! ایک سیکنڈ کیلئے بھی فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہونے دینگے۔ وفاقی وزیر نے آرٹیکل بارے بات کی تو شاید وہ قانون نہیں پڑھتے، آرٹیکل 6 غداری کے جرم پر لگتا ہے، قانون کی خلاف ورزی غداری نہیں۔
انہوں نے کہا کہ غداری کے مقدمے ایسے لگنے شروع ہو گئے تو پارلیمنٹیرینز کیخلاف بھی غداری کے مقدمے ہونگے، آرٹیکل 6 کا کوئی مقدمہ بن نہیں سکتا، اگر بنا تو اتنا بے بنیاد ہو گا کہ چل نہیں سکے گا۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عطا تارڑ نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ملک اور پاکستان تحریک انصاف ایک ساتھ نہیں چل سکتے، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی پرپابندی لگائی جائے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/15qannoirrhejjksjdjk.png