
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی بار بار تبدیلی اور مقدمات کے ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل کیے جانے کے عمل پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت سوالات اٹھا دیے، جس نے عدالتی انتظامیہ کے اختیارات اور نظام انصاف کی خودمختاری پر اہم بحث چھیڑ دی ہے۔
معاملہ اس وقت سامنے آیا جب جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کچھ مقدمات کو ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں بلا وجہ منتقل کیے جانے پر اعتراض کیا۔ سماعت کے دوران جسٹس کیانی نے واضح کیا کہ "قائم مقام چیف جسٹس انتظامی بنیادوں پر کوئی ایسا آرڈر نہیں دے سکتے جس سے عدالتی کارروائی پر اثر پڑے۔ یہ کسی طور مناسب نہیں کہ سنگل بینچ کے زیر سماعت کیس کو اچانک ڈویژن بینچ میں منتقل کر دیا جائے۔"
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "یہ میرا اصولی موقف ہے کہ میں کسی بھی کیس کو ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل نہیں کروں گا۔" یہ بات انہوں نے وفاقی کوٹہ سسٹم سے متعلق ایک اہم مقدمے کے تناظر میں کہی، جس کا بینچ گزشتہ روز قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔
عدالت کے اندر ہلکے پھلکے ماحول میں جسٹس کیانی نے وکلاء سے کہا کہ "جا کر انہیں بتائیں کہ اس معاملے پر دوبارہ غور کیا جائے۔" ان کے اس طرزِ گفتگو نے اگرچہ حاضرین کو مسکرا دیا، لیکن اس کے پیچھے عدالتی نظام میں بے ضابطگیوں کے خلاف ایک سنجیدہ پیغام بھی تھا۔
اس واقعے نے عدالتی حلقوں میں انتظامی اختیارات اور ججوں کی خودمختاری کے درمیان توازن کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ اگر مقدمات کو بار بار ایک بینچ سے دوسرے بینچ میں منتقل کیا جاتا رہے تو اس سے نہ صرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوگی، بلکہ عوام کا اعتماد بھی متاثر ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ اس معاملے پر کیا واضح رُخ اختیار کرتی ہے۔