ریاست کا کام خواتین کے حقوق کو تحفظ دینا ہے لیکن ایسے فیصلوں سے وہ اپنے آپ کو نسبتاً غیرمحفوظ سمجھیں گی: پروگرام اینکر
نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے؟ میں میزبان ماریہ میمن نے عدت میں نکاح کے کیس بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد 4 اہم اصول طے ہو گئے ہیں۔
پہلا یہ کہ میاں بیوی کے تعلقات میں عدت کے دورانیہ، ماہواری بارے ریاست فیصلہ کرنے کی مجاز ہے، دوسرا یہ کہ اگر کوئی خاتون خود یا حلف نامے کے تحت دعویٰ کرے کے متواتر تین ماہواریاں آنے اور عدت کی مدت پوری کرنے کے بعد اس نے دوسرا نکاح کیا ہے تو اس کی گواہی معتبر نہیں سمجھی جائے گی۔
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ خاتون کے خود کلیم کرنے پر بھی اس کی گواہی اور حلف نامے کو غیرمعتبر قرار دے دیا گیا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ 3،5 یا جتنے بھی سالوں بھی سابق خاوند اگر عدالت میں آکر یہ دعویٰ کرے کہ اس کے نزدیک خاتون نے عدت کا دورانیہ پورا نہیں کیا اور نکاح کے معاملات میں کچھ پیچیدگیاں ہیں تو عدالت اس معاملے کو دوبارہ دیکھے گی اور اس فیصلہ جاری کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی اس نظیر سے خواتین کو کمزور کرنے کے ساتھ تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں طلاق اور خلع کے معاملات میں خواتین کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ آج کے عدالتی فیصلے کو مثال بنا کر لوئر کورٹ میں جو کیسز چل رہے ہیں ان میں مشکلات کھڑی کی جا سکتی ہیں۔
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ چوتھی اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ عدت کے معاملے پر ایک خاتون کی گواہی پر اس کے سابق شوہر ، ملازمین ودیگر گواہوں کی بات کو فوقیت دی گئی ہے جو انتہائی خطرناک نظیر ہے۔ بہت سی خواتین جن کے ایسے کیسز میں عدالتوں میں ہیں ان کیلئے مشکلات پیش آ سکتی ہیں، ریاست کا کام خواتین کے حقوق کو تحفظ دینا ہے لیکن ایسے فیصلوں سے وہ اپنے آپ کو نسبتاً غیرمحفوظ سمجھ سکتی ہیں۔