
صدر مملکت آج کل وہی کرتے ہیں جو انہیں عمران خان کہتے ہیں، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا وہ فیصلوں میں تاخیر کرتے تھے: سینئر صحافی
سینئر صحافی وتجزیہ نگار حامد نے عمران خان کے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں سٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بیان پر کہا کہ ان کی آج کی گفتگو سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں لگتا ہے ان کی سٹیبلشمنٹ کے اندر حمایت اب بھی موجود ہے جبکہ وہ خود بھی کہہ چکے ہیں میرا لوگوں سے رابطہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی گفتگو کا مقصد صرف اور صرف سٹیبلشمنٹ کو پریشرائز اور بلیک میل کر کے یہ پیغام دینا ہے کہ آئیں میرے ساتھ بات چیت کریں ورنہ وہی کروں گا جو کچھ دن پہلے پریس کانفرس میں ایک افسر کا نام لے کر کیا تھا۔
حامد میر نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان سے جیسے عمران خان کو ریلیف دیا گیا ہے وہ قانون وآئین کے مطابق ہے لیکن جب نوازشریف اقتدار میں تھے اور عمران خان اپوزیشن میں اس وقت سپریم کورٹ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کا آج کے فیصلوں سے موازنہ کیا جائے تو زمین، آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے پر کہا کہ وہ آج کل وہی کرتے ہیں جو انہیں عمران خان کہتے ہیں، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا وہ فیصلوں میں تاخیر کرتے تھے۔ عمران خان کو لگتا ہے وہ بارگیننگ کی پوزیشن میں ہے، ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے سٹیبلشمنٹ کو ڈکٹیٹ کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سینئر تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ سٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں بالکل غلط ہے، ان کی بلیک میلنگ سٹیریٹجی پہلے بھی کام کرتی رہی ہے اب بھی ان کا خیال ہے کہ ایسا ہو گا۔ عمران خان کچھ حاضر سروس فوجی افسران کے نام لے کر تنقید کرتے ہیں، سٹیبلشمنٹ کا نام بھی لیتے ہیں، مجھے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ وہ سٹیبلشمنٹ مخالف نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان نے آج لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف مجھے اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے میرے سٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں ہے لیکن کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ عام انتخابات ہو جائیں تو بہتر ہے، امپائرز کے باوجود انتخابات میں کامیاب ہونگے، اوورسیز پاکستانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔