عمران خان نہیں۔ جنرل باجوہ جنرل عاصم منیر عوام اور اسلام کے غدار ہیں

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
کمنٹ دوبارہ پڑھو شاید افاقہ ہو کیونکہ میں نے لکھا ہے کہ شہید کون ہے اس کا اصل فیصلہ خدا کو ہی کرنے دو کیونکہ ہر کسی کا اپنا اپنا نظریہ ہے۔ اب آتے ہیں لاش کی بے حرمتی کی طرف تو جناب میں نے آپ کو بتایا کہ یہی شہید تھے اور یہی فوج تھی جس نے اپنے ہی شہیدوں کو لینے سے انکار کردیا تھا یعنی یہ فوج اس سے بھی بڑی توہین کی پہلے ہی مرتکب ہوچکی ہے ۔ کسی نے کرنل شیر کی لاش کی بے حرمتی نہیں کی۔ خوامخواہ جذباتی ٹامک ٹوئیاں مارنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہونے والی۔ میرا کعبہ بالکل درست ہے اور میں ان میں سے کسی کو نجات دہندہ نہیں سمجھتا ۔ ملک کے لئے مخلص ہوں کسی جرنیل ، نواز شریف ، زرداری یا عمراں خان کے لئے بالکل بھی مخلص نہیں ہوں۔ جو کچھ یہ جرنیل کر تے رہے ہیں اس کا زہر سوسائٹی میں بھر چکا ہے ۔ میں نے ایک دفعہ بھی نہیں کہا کہ نو مئی کو جو ہوا وہ درست ہوا لیکن میں نے وہ عوامل بیان کئے جس کی بنیاد پر یہ سب کچھ ہوا اور جرنیل اور یہ سیاسی قوتیں سب اس میں برابر کی شریک ہیں اس لئے سب مجرم ہیں۔ اور اگر یہ جرنیل اور تمارے نام نہاد لیڈر مستقبل میں یہی کام کرتے رہے تو اس سے بھی بڑے ردعمل کے لئے تیار رہیں کیونکہ جب لوگوں کی زندگیاں مہنگائی کے زور سے جہنم بن جائیں گی تو ایسے واقعات معمول ہوجائیں گے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ عوام اور حکومت سب کو ملکر ملک کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہئے۔ ان نفرتوں کو ختم کرکے ایک قوم ہوکر سوچنا چاہئے۔ سب کو مل بیٹھ کر کوئی بہتر حل نکالنا چاہئے ورنہ یہ انائیں ملک کو بھسم کرتی جائیں گی۔


دیکھو بھائ ، اگر اللہ پر فیصلہ چھوڑتے ہو تو پھر مکمل چھوڑو ، اس کے بعد کسی نکتہ چینی ، کسی مزاحیہ فقرہ بازی یا کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھو ۔ اب بیک پیڈل مارنے کی ضرورت نہیں ھے ۔

شہیدوں کو واپس نہ لینے کی وجوھات تھیں جن پر اگر وقت ملے تو غور کرنا ۔ شہیدوں کو واپس لیا گیا اور احترام کے ساتھ سپر خاک کیا گیا تھا ، اب اس عمل میں کیڑے نکالنے کی ضرورت نہیں ھے ۔


چند فرد قوم کو ٹھیک یا غلط نہیں کرسکتے ، قوم افراد کو ٹھیک یا غلط کر سکتی ھے ۔

یہ بات تو عام فیشن بن گئ ھے کہ قوم کی حالت زار پر دو منصنوعی آنسو بہا کر اسے سیاستدانوں اور فوج کے جنریلوں کے کرتوتوں کا شاخسانہ قرار دینا ، اور کہنا کہ جب تک یہ ٹھیک نہیں ہونگے ، آپ ان سے خوش نہیں ۔
تاھم عملی حل پیش کرنا بہت مشکل اور کڑا کام ہے ۔ نہ تو کوئ انسان کسی فرد کے اعمال اور حرکات کوبدل سکتا ہے اور نہ ھی قوم کے عمومی ، مجموعی رویے کو ۔

جب تک یہ قوم اپنی تقدیر کو اپنے عمل سے نہیں بدلتی ، کوئ اصلاح ممکن نہیں ۔ جب تک انفرادی اور اجتماعی عمل کو اپنی خواھشات کے مطابق نہیں ڈھالتی ، کوئ ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں ۔

اب زیادہ بھڑکیاں نہ مارو اور نو مئ کے واقعات پر کانوں کو ھاتھ لگاؤ ورنہ فیر چھتر تیار ھے ۔۔
 

Back
Top