
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف کو جنرل عاصم منیر کی "کٹھ پتلی" اور "اردلی" قرار دے دیا۔
عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ جنرل عاصم منیر کے احکامات پر عمل درآمد کرنے والے ایک اردلی کی طرح ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشرف دور میں شوکت عزیز زیادہ طاقتور وزیراعظم تھے، جو کہ براہ راست فوجی حکمرانی کے تحت تھے۔
اردلی کی اصطلاح، جو برطانوی سامراجی دور سے لی گئی ہے، کا استعمال کرکے عمران خان نے یہ اشارہ دیا ہے کہ شہباز شریف کی حیثیت ایک ایسے فرد کی ہے جو محض فوجی قیادت کے احکامات پر عمل کرتا ہے، نہ کہ ایک خود مختار وزیراعظم کی۔
https://twitter.com/x/status/1876307579791679604
اردلی یا بیٹ مین کی اصطلاح برطانوی فوجی روایت سے نکلی ہے، جس کا مطلب ہے ایک ایسا فوجی جو برطانوی افسر کی خدمت گزاری اور حکم بجا لانے کے لیے مقرر ہو۔ یہ روایت برطانوی سامراج کے دور سے نوآبادیاتی فوجوں میں بھی منتقل ہوئی، جس میں ہندوستانی اور بعد ازاں پاکستانی فوج بھی شامل ہے۔
تاریخی طور پر اردلی کی اہمیت کا اندازہ 1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں ساڑھے سولہ ہزار برطانوی افسران اور فوجیوں کے لیے اڑتیس ہزار اردلی تعینات کیے گئے تھے۔ اس جنگ کا انجام المناک تھا، اور صرف ایک فوجی ڈاکٹر زندہ بچا، جس نے واپس جاکر شکست کی خبر دی۔
پاکستانی فوج میں اردلی کی روایت برطانوی دور سے چلی آ رہی ہے۔ بحریہ اور فضائیہ میں کمیشنڈ افسران کو ملازم رکھنے کا الاؤنس دیا جاتا ہے، جبکہ بری فوج میں صوبیدار میجر سے لے کر جنرل تک افسران کو ایک یا اس سے زیادہ اردلی دیے جاتے ہیں۔ یہ اردلی فوجی یونٹوں سے منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کا بنیادی کام افسر کی وردی، جوتے، اور دیگر ذاتی اشیاء کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔
ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹس کو بھی اردلی دیے جاتے ہیں، جو ان کی وردی صاف رکھنے اور دیگر ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اردلی اور افسر کا تعلق بعض اوقات زندگی بھر کا بھی ہو سکتا ہے، اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بعض افسر اپنے سابق یونٹ سے اردلی طلب کرتے رہتے ہیں۔
یہ روایت ایک طویل سامراجی ورثے کا حصہ ہے، جو آج بھی پاکستانی فوج کے نظام کا حصہ ہے، اور افسران اور اردلی کے تعلق کو ایک مخصوص فریم ورک میں برقرار رکھتی ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/6whosisisauurdlu.png