عمران خان پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جائیگا

Aliimran1

Chief Minister (5k+ posts)

Iss video ko ziada Se ziada share karain —— In sahib se ziada kisi nay FOUJ aur MAILK RIAZ ko Nanga nahi Kia —- FOUJ LANTAIN Beyshumar​

 

nutral is munafek

Minister (2k+ posts)
ریڈ لائن خاکی کیسے ہو گئی؟(BBC Urdu)

ریڈ لائن خاکی کیسے ہو گئی؟​

تحریک انصاف

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
مضمون کی تفصیل
  • مصنف, عارف شمیم
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 8 گھنٹے قبل
نو مئی کو ہونے والے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا گیا اور پھر ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی۔
ایک کے بعد ایک پی ٹی آئی کا ’ڈائی ہارڈ‘ رہنما جو چند دن پہلے ’چھین کے لیں گے آزادی‘ اور ’عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے‘ کا نعرہ لگا رہا تھا، ایک ہی جیسے سٹیج پر میڈیا کے سامنے آیا، نو مئی کے واقعات پر ندامت کا اظہار کیا، فوج سے محبت جتائی اور پی ٹی آئی سے راہیں جدا کیں یا اس کے کسی عہدے سے استعفیٰ کا اعلان کیا اور خاموشی سے ’چُپ‘ کی دنیا میں چلا گیا۔
نہ کسی نے وجہ پوچھی اور نہ ہی کسی نے مناسب سمجھا کہ اسے بتایا جائے۔ جیسے ہی فوجی عدالتوں کی بات آئی ’ریڈ لائن‘ ’خاکی‘ ہوتی گئی اور خوف کے بادل چھانا شروع ہو گئے۔
پہلے بھی لوگ ’ضمیر کی آواز‘ سُن کر یا ’دباؤ‘ میں آ کر ’بچوں اور فیملی‘ کو زیادہ وقت دینے کے لیے پارٹیاں چھوڑ یا بدل لیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ نہ صرف یہ بڑے پیمانے اور ایک خاص طرز پر ہوا بلکہ یہ مضحکہ خیز حد تک افسردہ بھی تھا جس سے ریاستی جبر کا خوف صاف عیاں ہے۔
عمران خان

،تصویر کا کیپشن
تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر پرویز خٹک نے بھی اپنے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا

خوف کتنا ہے؟ ’پہلے گھر بیٹھ کر برا بھلا کہہ لیتے تھے اب وہاں بھی بولنے سے ڈرتے ہیں‘​

فریحہ تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہاں پر ان کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ اگر ان کا اصلی نام لکھا گیا تو کہیں وہ اور ان کی ملازمت بھی خطرے میں نہ پڑ جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو ’نان سٹاپ ہراساں‘ کیا جا رہا ہے۔ اگر آپ کچھ لکھیں گے، میسیج کریں گے حتٰی کہ اگر آپ لطیفہ بھی شیئر کرتے ہیں تو آپ کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پکڑے ہی نہ جائیں۔ ہر چیز مانیٹر ہو رہی ہے، ہر چیز انڈر کنٹرول ہے۔ یہ عام ورکنگ کلاس کی بات ہے جو کہ سیاسی اتھل پتھل میں کہیں نہیں آتی اور نہ ہی اس کا براہ راست حصہ ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ایک جاننے والے کے ڈرائیور کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ کسی ورکنگ کلاس کا شخص جو کہ پارٹی کا ممبر ہے یا اسے سپورٹ کرتا ہے تو اگر وہ مظاہرے میں گیا تھا تو اس کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
اس وجہ سے ورکنگ کلاس میں بھی زیادہ خوف ہے۔ ’اور مڈل کلاس کے لوگ تو بہت ہی انڈر کنٹرول آ گئے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ انھیں متواتر مانیٹر کیا جا رہا ہے اور جو سرویلینس ہے، مانیٹر ہونے کا خوف ہے اس وجہ سے ایسے ایسے لوگ جو پہلے اتنا بولتے تھے اب ان میں سے بھی زیادہ تر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔‘
PTI

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
،تصویر کا کیپشن
تحریک انصاف کے سینیئر رہنما یا تو پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اور جنھوں نے اب تک یہ اعلان نہیں کیا وہ زیر حراست ہیں

’تشدد چلتا چلتا سینٹر میں آ گیا ہے‘​

یونیورسٹی آف لیور پول میں سیاسی معاشیات، تاریخ اور سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ایاز ملک سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف پر جاری کریک ڈاؤن کو وسیع تناظر میں دیکھنا چاہیے جس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ بہت عرصے سے جو ہمارے چھوٹے صوبوں میں جبر چل رہا ہے، اس جبر کا کچھ ’گلمپس‘ (جھلک) اب ہمیں پاکستان کے کچھ وسطی علاقوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔
’پاکستان کی ریاست کے پاس سرویلنس کی صلاحیت اب پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد تو یہ بہت ایڈوانس ہو گئی ہے۔ اس پر عملدرآمد یا کارروائی اب ہمیں نظر آ رہی ہے کہ کس طرح واٹس ایپ اور فیس ریکِگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کے ذریعے سے اور فون کے سرویلینس سے وہ لوگوں کا ٹریک ڈاؤن (پتا چلا) کر رہے ہیں۔‘
’اور یہ جبر یا ظلم ان جگہوں پر ہو رہا ہے جہاں کے لوگوں نے اس وقت خاموشی اختیار کی تھی جب پہلے یہ سب کچھ کہیں اور ہو رہا ہوتا تھا۔ یعنی کہ ان متوسط یا اپر مڈل کلاس کے طبقات پر ایک سطح پر زور پڑا ہے جو عام طور پر اس طرح کے آپریشن پر خاموشی اختیار کرتے تھے یا حمایت کرتے تھے۔ وہ ایک سطح پر اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے ان حلقوں بھی ’ملٹرائزڈ فارم‘ کے خلاف بے چینی بڑھ چکی ہے۔‘
’ایک تاثر بڑھتا جا رہے جو اب بلوچستان، سندھ یا کے پی کے میں نہیں ہے بلکہ وہ پنجاب کے مرکز تک پہنچ چکا ہے۔ آسان زبان میں پرانا تشدد اب سفر کر کے سینٹر میں آ گیا ہے۔‘
Fawad

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
،تصویر کا کیپشن
فواد چوہدری نے عمران خان کو خیرباد کہہ کر اعلان کیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی سابقہ لیڈر شپ سے رابطے میں ہیں

خوف کی فضا اور سیاسی جماعتیں​

ڈاکٹر ملک کہتے ہیں کہ ’آپ خوف کی فضا کا اثر سیاسی جماعتوں پر ڈال سکتے ہیں، سیاسی انجینیئرنگ کر سکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اس طرح ختم نہیں ہوتیں۔‘
ضیا دور میں جو پییپلز پارٹی کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، وہ ظلم اس سے کہیں زیادہ تھا۔ ان کے لیڈر تک کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلی دو سے ڈھائی دہائیوں تک پاکستان کی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو کے نوٹ کے اردگرد سٹرکچر ہو گئی۔ ‘
’اسی طرح نواز شریف کے ساتھ بھی یہ ہوا، ان کی جماعت کا ہر بندہ جیل میں ڈال دیا گیا اور ان پر اتنا پریشر ڈالا گیا لیکن پھر بھی نون لیگ کو ووٹ پڑا خاص کر سینٹرل پنجاب میں۔ حالانکہ اتنا دباؤ تھا۔ اسی طرح ایم کیو ایم پر بھی دباؤ رہا، دھڑے بھی بنائے گئے، رینجرز کا آپریشن ہوا، فوج کا آپریشن ہوا، لیکن پارٹی اس وقت نہیں ختم ہوئی۔‘
’پارٹی بعد میں اس وقت کمزور ہوئی جب وہ خود ہی اندر سے انتشار کا شکار ہوئی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کی سیاسی انجینیئرنگ اور اس کے حمائتیوں کو اٹھا کر مار کٹائی کرنے پارٹی پر اثر تو ہو گا لیکن سمجھنے کی یہ ضرورت ہے کہ ملک کی باقی پارٹیوں سے ہٹ کے پی ٹی آئی کی سپورٹ بیس عمران خان کی ’پرسنائلز سپورٹ بیس‘ (شخصیت کا ووٹ) ہے۔ پارٹی تنظمی لیول پر اگرچہ مظبوط نہیں ہے لیکن عمران خان کی وجہ سے اکٹھی ہے۔‘

عدم برداشت ’ٹاپ آف دی لسٹ‘​

Corps Commander House Lahore

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA
،تصویر کا کیپشن
کور کمانڈر ہاؤس میں جلاؤ گھیراؤ کے ذمہ داران کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں
قائدِ اعظم یونیورسٹی میں سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پڑھانے والے ڈاکٹر سید قندیل عباس اس کو پاکستان کے سیاسی کلچر کی مناسبت سے دیکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جو سیاسی کلچر ہے اس میں ہم جمہوریت کی تو بات کرتے ہیں لیکن جو لبرل ڈیموکریسی کے انڈیکیٹرز ہوتے ہیں جن میں ’ٹاپ آف دی لسٹ‘ ٹالرنس (برداشت) ہوتی ہے اور جب تک برداشت نہ ہو تو جمہوریت کا مفہوم ہی نہیں ہوتا۔‘
ان کے خیال میں پاکستان کی کسی ایک جماعت میں بھی برداشت نظر نہیں آتی۔ ’لبرل ڈیموکریسی کے انڈیکیٹر کے طور پر جو برداشت کی تعریف کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ’ٹو، ٹولوریٹ پولیٹیکل ایکٹیویٹی آف موسٹ ہیٹڈ اپونینٹس‘، مطلب کہ عام مخالفوں کو برداشت کرنا مفہوم نہیں رکھتا بلکہ سب سے زیادہ نفرت زدہ کو برداشت کرنا اصل بات ہے۔ پاکستان کے 75 سال سیاسی کلچر میں ہمیں یہ کبھی بھی کسی مرحلے پر نظر نہیں آیا۔‘
حالیہ کریک ڈاؤن میں بھی دونوں طرف سے برداشت ختم نظر آ رہی ہے۔
’ایک تو پولیٹیکل ایکٹیویٹی میں برداشت نظر نہیں آتی، اس کے علاوہ پی ڈی ایم کی 13 جماعتوں نے بھی برداشت نہیں دکھائی۔ انھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی اور 90 دن میں الیکشن نہیں کروائے۔ اس کی وجہ سے عمران خان اور ان کی حمایتیوں میں شدید ری ایکشن پیدا ہوا اور جب اس کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی گئی تو اسی وجہ سے یہ کریک ڈاؤن ہوا۔ اور اس کریک ڈاؤن میں عدم برداشت ہمیں دونوں طرف نظر آ رہی ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ اس کے لانگ ٹرم کونسیکوینسز (طویل المدتی اثرات) پاکستان کے سیاسی کلچر کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کا آسان اور سیدھا حل یہی ہے کہ سب سٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور پر امن حل کا سوچیں۔‘
فریحہ کہتی ہیں کہ کریک ڈاؤن اتنا حقیقی ہے کہ بہت سے سکولوں اور کالجوں کی بچیوں نے اپنے فونز کی سمیں نکال دی ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ انھیں ٹریک کیا جا رہا ہے۔ مڈل ورکنگ کلاس میں ہر پانچ میں سے ایک شخص ضرور متاثر ہے اور کئی حالات میں غائب ضرور ہوا ہے۔ اکثر طلبہ غائب ہیں۔ کچھ ایک دو دن بعد مل جاتے ہیں اور کئی ایک کا ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ معاشرے میں عجیب طرح کی فرسٹریشن ہے اور لوگ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی باتیں بڑے آرام سے کرنے لگے ہیں جیسا کہ یہ کوئی روز مرہ کا کام ہے۔
وہ اس کی مثال دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ حال ہی میں ایک سکول نے کلاس اور ایکویلیٹی (سماجی تقسیم اور برابری) کا ایک پراجیکٹ کیا اور اس میں زیادہ تر لوگوں نے ملک کے بارے میں فرسٹریشن اور ان ایکویلیٹی کی باتیں کہیں کہ امیر اور بڑے لوگ سب مزے کر رہے ہیں اور ہم پس رہے ہیں۔ اس میں انھوں نے امیروں کے گھروں کو توڑنے پھوڑنے، ٹیکس نہ دینے اور احتجاج کرنے کی بھی بات کی۔ اور یہ سب عام مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ تھے۔‘
ظاہر ہے سکول نے یہ سب فرسٹریشن بھرے کلمات اپنی رپورٹ میں نہیں لیے۔
وہ سمجھتی ہیں کہ ایسی ’ان ایکویلیٹی‘ (عدم مساوات) شاید ہی کبھی محسوس کی گئی ہو۔ ’لوگوں کو اپنے لیے کوئی امید نہیں نظر آ رہی، انھیں لگتا ہے کہ اگر وہ احتجاج نہیں بھی کریں گے تو مارے جائیں اور کریں گے تو تب بھی یہی حال ہو گا۔ جب لوگ تنگ آتے ہیں تو تب ہی سڑکوں پر آتے ہیں، پیٹ بھری قوم کب سڑکوں پر آتی ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘
’ضیا کے دور میں لوگ گھروں میں بیٹھ کے تو اسے برا بھلا کہہ لیتے تھے لیکن اب تو وہ ایسا کرنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت باخبر ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں تو کوئی ایسی بات کہنے سے بھی ڈرتا ہے کہ پکڑے گئے نوجوانوں کو معاف کر دینا چاہیے۔‘
IK

،تصویر کا ذریعہِISPR

یہ نوبت کیسے آئی؟​

ڈاکٹر ایاز ملک کہتے ہیں کہ عمران خان کی پوری تحریک تقریباً گذشتہ 20 برس میں ابھری ہے۔ 90 کی دہائی میں اور 2000 کے عشرے میں اکنامکس لبرالائزیشن کے تحت جو نئے طبقات ابھرے ہیں ان کو جب سیاسی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے میں جگہ نہیں مل سکی تو اس کا اظہار عمران خان کی شخصیت کے ذریعے ہوا۔
’اب اس میں پیچیدگی یہ ہے کہ اس میں متوسط طبقات تو ابھرے جن میں عمران خان کی پارٹی کی ’بیس‘ (بنیاد) مڈل کلاس ہے لیکن اس نے ان ہی مقتدرہ حلقوں سے اقتدار میں آنے کا سودا کیا جن میں فوج سرِ فہرست تھی۔ جس میں 2017 اور 18 کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک طرح سے وہ ایک فطری اتحاد تھا لیکن ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان میں سویلین اور ملٹری کا اتحاد زیادہ دیر چلتا نہیں ہے۔ چاہے وہ جتنا بھی مظبوط ہو کسی نہ کسی سطح پر آ کے وہ ٹوٹتا ہی ہے۔ اور اس کے ٹوٹنے کا خمیازہ ہم آج کل بھگت رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر قندیل اسے ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے جو موومنٹ چلائی تھی اس کا نام بھی تحریکِ انصاف رکھا گیا تھا۔ اور موومنٹ جب چلتی ہے تو وہ خاص مطالبات کے ساتھ چلتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایک تحریک اور ایک سیاسی جماعت میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ تحریک خاص قسم کے مطالبات کے لیے چلتی ہے جیسے مزدوروں کی تحریک ہے، طلبہ کی تحریک ہے یا سرکاری ملازمین کی تحریک جہاں وہ اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں، اس کے لیے احتجاج بھی کرتے ہیں اور جب مطالبات پورے ہو جاتے ہیں تو وہ تحریک ختم ہو جاتی ہے اور بعد میں اس کا نام بھی نہیں لیا جاتا۔ جیسے ہمارے ہاں وکلا کی تحریک چلی تھی اور اس کا اب نام بھی کسی کو یاد نہیں۔
’عمران خان نے بھی اپنی اس ’ایکٹیویٹی‘ کا نام تحریک رکھا تھا، تحریک انصاف۔ اور 26، 27 سال وہ اسی موڈ میں رہے ہیں اور جب انھیں حکومت مل بھی گئی تو وہ تحریک کے موڈ میں ہی رہے، اور اس تحریک والے موڈ میں احتجاجی سیاست اور سٹریٹ پولیٹکس زیادہ حاوی رہتی ہے۔
عمران خان جب تک اپوزیشن میں تھے اور جدوجہد کر رہے تھے اس دوران ان کا جو انداز تھا وہ حکومت آنے کے بعد بھی عموماً وہ ہی رہا۔ ان کی تقاریر سن کر ایسا لگتا تھا کہ وہ کنٹینر پر چڑھے ہوئے ہیں اور وزیرِ اعظم بننے کے بعد بھی وہ کنٹینر پر ہی بولتے نظر آتے تھے۔
ِتحریک

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
اب مسئلہ یہ ہے کہ جب انھیں حکومت سے نکالا گیا تو وہ پھر بھی وہی تحریک والے ’موڈ‘ میں رہے۔ لیکن اس پورے دور میں انھوں نے اپنے سیاسی کارکن کی تربیت نہیں کی۔ تحریک والے ورکر کی طرح کی ہی سوچ رہی، جو کہ سٹریٹ پولیٹکس ہوتی ہے جس میں جلسہ ہوتا ہے، جلوس ہوتا ہے اور کبھی کبھار توڑ پھوڑ بھی شامل ہو جاتی ہے۔
’حکومت سے نکلنے کے بعد ایک سال سے وہ اسی موڈ میں ہیں اور جو ان کا ورکر تھا وہ ایک پولیٹیکل پارٹی کا ورکر نہیں تھا بلکہ ایک تحریک کا ورکر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب احتجاج ہوا تو وہ پرتشدد شکل اختیار کر گیا خاص طور پر جب ملٹری تنصیبات یا حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے جواب میں ہی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سخت رد عمل آیا۔‘
ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک خراب نہیں ہوتی، لیکن جو تحریکیں شارٹ ٹرم کے لیے آتی ہیں ان میں تشدد کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی تحریک انقلابی تحریک بن جائے تو یہ مثبت تحریک ہوتی ہے۔ اس کے مثبت اثرات ہوتے ہیں اور جب یہ کامیاب ہوتی ہے تو اس کا موڈ چینج ہو جاتا ہے اور پھر وہ نظریاتی طور پر ایک سیاسی جماعت بن جاتی ہے اور پھر وہ سسٹم میں تبدیلی لاتی ہے۔
’تحریک کے دوران جو تشدد ہوا ہوتا ہے وہ ’تھیوریٹیکلی جسٹیفائیڈ‘ (نظری طور پر قابل قبول) ہے۔ قانون بھی یہی کہتا ہے کہ کسی غیر منصفانہ نظام کے خلاف تحریک چلتی ہے تو اس میں اگر کوئی توڑ پھوڑ ہو یا اگر کوئی مارا بھی جاتا ہے تو وہ جائز ہی کہلاتا ہے لیکن وہ اس وقت جب تحریک کامیاب ہو جائے۔ عمران خان نے جب بھی کبھی اپنا موڈ ظاہر کیا تو وہ انقلابی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے، وہ ایک طرف تو تحریک چلا رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ ارتقائی عمل کی بات کرتے تھے۔ اور یہ ایک تضاد تھا۔‘
’دیکھیں وہ تین چار سال پاور میں رہے اور اس دوران وہ جو تبدیلیاں لا سکتے تھے انھوں نے اقتدار کے باوجود وہ اقدامات نہیں لیے۔ لیکن جب وہ اپوزیشن میں آتے ہیں تو ایسے ایسے مطالبات کرتے ہیں کہ میں ملک میں جوڈیشل سسٹم (عدالتی نظام) بدل دوں گا، میں جرنلزم میں یہ تبدیلیاں لے آؤں گا، اور وہی میں چور ڈاکو اور لٹیروں کو اڑا کے رکھ دوں گا، ختم کر کے رکھ دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں اپوزیشن میں تو اچھی لگتی ہیں لیکن جب آپ پاور (اقتدار) میں تھے تو آپ نے کیا کیا۔ آپ نے بہت کمپرومائزز (سمجھوتے) کیے۔ ‘
دوسری طرف فریحہ کہتی ہیں کہ پہلے سیاسی اختلافات ہوتے تھے لیکن اب ’ہیٹ سپیچ‘ (نفرت آمیز تقاریر) بھی شامل ہو گئی ہے۔ ’نو عمر بچے اور سوسائٹی اسے بڑا ’آئیڈیالائز‘ کرنے لگی ہے۔ ’انٹیلیکچوئل گرومنگ‘ نہیں ہو رہی۔ 80 اور 90 کی صدی میں ایک ’رومانٹیسزم‘ تھا لوگ مارکسزم کی بات کرتے تھے، اس وقت پہلی دفعہ ایسے جملے سنے تھے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب آئیڈیولوجیکل رومینٹیسزم نہیں بلکہ ’پرسنیلیٹی کلیش‘ (شخصی ٹکراؤ) ہے جو کہ بڑا خطرناک ہے۔‘

فوجی عدالتیں ماضی اور حال​

فوجی عدالتیں

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ڈاکٹر ایاز ملک کہتے ہیں کہ حال کو سمجھنے کے لیے آپ کو ماضی میں جانا پڑے گا۔ اگر آپ ذرا 15 سال پیچھے چلے جائیں یعنی باضابطہ جمہوریت کا نیا دور، تو آپ دیکھیں گے سنہ 2008 سے لے کر سنہ 2018 تک کا جو ایک عرصہ ہے اس میں ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ جس طرح باضابطہ جمہوریت آگے بڑھے گی اسی طرح آپ کے شہری حقوق بھی آگے بڑھیں گے اور سماجی حقوق بھی بڑھتے چلیں جائیں گے۔
’لیکن ہوا اس کے الٹ۔ جس طرح ہم سنہ 2008 سے سنہ 2013 میں آئے اور 2013 سے 2018 میں آئے تو باضابطہ الیکشن تو ہوتے رہے لیکن آپ کی جمہوری سپیس کم ہوتی چلی گئی۔‘
وہ اس کی مثال میمو گیٹ کی دیتے ہیں جس میں بہت سی سویلین پارٹیوں نے کردار ادا کیا تھا۔ ’یہ غیر جمہوری قوتوں کے پاس ہی گئے، انھوں نے ملٹری کورٹس کو منظور کیا۔ سینیٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ملٹری کورٹس کو جسٹیفائی کیا۔
انھوں نے فاٹا سے لے کر بلوچستان تک ان اکاؤنٹیبل فوجی آپریشنز کی منظوری دی۔ تو بنیادی بات یہ ہے کہ انھوں نے ہر موقعے پر فوج کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے، فوج کی بڑھتی مداخلت کے خلاف بند باندھنے کے بجائے اس پر ہی انحصار کیا۔
فوج کشی اور فوج داری پر فوج کو ہی سراہا۔ عوام پر انحصار کرنے کے بجائے فوج پر انحصار کیا، آتھوروٹیرین (حاکمانہ) طریقوں پر انحصار کیا، جبری طریقوں پر انحصار کیا۔ جنرل مشرف کو بھگانے کے طریقے کو دیکھ لیں، ایکسٹینشن کو دیکھ لیں، ملٹری کورٹس دیکھ لیں، سنجرانی والے معاملے کو دیکھ لیں اس میں ہماری تمام مقتدرہ پارٹیوں نے یا تو فوجی ’مینوورنگ‘ کو ’اپروو‘ کیا یا اس میں آمادگی کا اظہار کیا یا پھر اس میں خود ایکٹیو حصہ لیا۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ نے اس نام نہاد جمہوری دور میں فوج کے سامنے جب سرِ تسلیم خم کیا ہے تو اب وہ کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔
’اب بالکل ایک غیر اعلانیہ مارشل لا والا معاملہ ہے۔ جب آرمی ایکٹ بلوچستان، پختونخوا وغیرہ میں استعمال ہو رہا تھا تو آپ خاموش تھے، جب جبری گمشدگیاں فاٹا میں ہو رہی تھیں تو آپ خاموش تھے، وہ اب آپ کے اوپر بھی ہو رہی ہیں۔ اس کے سب ذمہ دار ہیں، نواز شریف، زرداری اور عمران خان۔ عمران خان کے دور میں ہی ادریس خٹک پر ٹرائل چلتا رہا۔ اس وقت کوئی نہیں بولا اور اب آپ پر ہو رہا تو آپ کے ساتھ بھی کوئی کھڑا نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
پولیس عسکری املاک پر حملہ کرنے والوں کی شناخت اور گرفتاریاں کیسے کر رہی ہے؟
پاکستان میں سوشل میڈیا کی بندش کے باوجود مظاہرے کیوں نہ تھم سکے؟
عمران خان کی گرفتاری اور حالیہ واقعات کا کس کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

پرسنیلیٹی کلٹ اور جماعتیں​

تو اب سوچنا یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے عمران خان خود کتنے ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ایک سب سے بڑی سیاسی جماعت کے لیڈر ہونے کے ناطے سے ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
کیا انھوں نے اپنے لاتعداد یو ٹرن سے اور اپنی تقاریر میں متضاد باتیں کر کے لوگوں کے ذہنوں میں دوسرے سیاسی، جمہوری اور بعد میں فوجی اداروں کے خلاف نفرت نہیں بھری۔
کبھی اسلامی ٹچ، کبھی امپورٹڈ حکومت اور کبھی امریکی سازش کا ورد کیا۔ پہلے ہر چیز کا کریڈٹ لیتے رہے اور جب اقتدار سے نکلے تو ایک دم کہہ دیا کہ مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا تھا۔
پہلے سابق جنرل باجوہ کو ’قوم کے باپ‘ کی طرح کہا تھا اور اس سے بڑا ’جمہوری‘ لیڈّر کوئی نہیں تھا اور پھر یکدم وہ سب سے بڑے غیر جمہوری دشمن بن گئے۔
سیاسی لیڈران پر تو چاہے اس کا اثر ہو لیکن ان کی فین بیس اس سے قطعی متاثر نہیں ہوئی۔ انھیں عمران کا 180 ڈگری کا زاویہ بدلنا کوئی برا نہیں لگا، کیونکہ ان کے لیے تو صرف وہ ہی مسیحا اور صادق اور امین ہیں۔ کیا یہ ’کلٹ فالوونگ‘ سیاست کے لیے کوئی اچھی خبر ہے۔
ڈاکٹر ایاز ملک سمجھتے ہیں کہ ’کلٹ فینیومینن‘ (نظریاتی نہیں بلکہ شخصیت سے جذباتی لگاؤ کا رواج) آپ کے سیاسی کلچر اور سیاسی سمجھ بوجھ کے لیے کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے لیکن سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ کیا حالات ہیں جس میں کلٹ پیدا ہوتا ہے۔
’سماج میں وہ کس قسم کی بیگانگیت اور بے چینی، عدم مساوات ہے جس میں الطاف حسین پیدا ہوتا ہے، یا اس میں ایسے بحران پیدا ہوتے ہیں کہ جن میں سے عمران خان جیسا رہنما ابھرتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کو دبا تو دیں گے، آپ پارٹی کی ہائی اور مڈل لیول لیڈر شپ کو کاٹ دیں گے لیکن کور بیس نہیں متاثر ہو گی کیونکہ وہ پرسنائلز قسم کی ہے۔ اور وہ ان حالات سے پیدا ہو رہی ہے جن کا علاج پاکستان میں کسی بھی مقتدر قوت کے پاس نہیں ہے۔ اگر آج عمران خان ہو گا تو کل خادم رضوی ہو گا اور پھر کوئی اور۔
’ویسے اوور آل سیاسی کلچر بھی اچھا نہیں ہے۔ لوگوں کی وفاداری افراد کے ساتھ نہیں سسٹم کے ساتھ ہونا چاہیے کہ سسٹم کس طرح کام کرتا ہے۔‘
آئی ایم ایف

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

سیاسی اور معاشی بحران کا تعلق​

ڈاکٹر ایاز ملک سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی بحران ملک کے معاشی حالات سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت دو حصوں پر قائم ہے۔
ایک دنیا بھر کے استعماری ممالک کو خاص پر امریکہ کو اپنی لیبر بھیجنا تاکہ زرِ مبادلہ آئے۔ اور دوسرا اپنی سروسز بیچنا، خاص طور پر فوجی سروسز۔
’اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی دلچسپی پچھلے دس پندرہ سال سے اس پورے خطے میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ایڈ والا معاملہ کم ہوتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے ہمارا معاشی بحران تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے اور ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اور آئی ایم ایف کی طرف سے کیے جانے والا اقدامات کے بعد غیر مقبولیت بڑھتی ہے۔
اس میں اگر کوئی فرشتہ بھی آ جائے تو وہ غیر مقبول ہو جائے گا۔ اس لیے حالات اس طرح کے ہیں کہ اپوزیشن میں جو بھی ہو گا وہ پاپولر ہو گا۔ کئی سالوں سے پرورش پانے والے وسیع تر معاشی اور معاشرتی بحران سے جو سیاسی تصادم یا سیاسی موومنٹ کا تعلق بنتا ہے وہ اس خاص نہج تک پہنچ چکا ہے۔‘
اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کا سیاسی بحران تو ہے ہی لیکن معاشی بحران جو پچھلے پچاس برس سے پنپ رہا ہے اور اب پچھلے دس پندرہ سال سے ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ مقتدرہ کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
ابھی آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے اور اس کے بعد ان کو ایک اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرف جانا پڑے گا۔ اور اس کے بعد وہی ہو گا کہ آپ غریبوں کے لیے تھوڑا بہت جو مراعات، سبسڈی یا ویلفیر تھی آپ کو اسے بھی ختم کرنا پڑے گا۔
مہنگائی مزید اوپر جائے گی اور اس سے جو بے چینی اور بیگانگیت پیدا ہو گی اس سے آپ کا سیاسی بحران جاری رہے گا۔
الیکشن ہو کہ نہ ہو، عمران خان ہو کہ نہ ہو، آپ کا سیاسی بحران مضبوط طریقے سے جڑا ہوا ہے آپ کے معاشی بحران سے۔ یہ معاملہ اب سیاست سے بڑھ کر سماج اور معاش کا معاملہ ہو چکا ہے۔‘
معاملہ سماج کا ہو یا معاش کا لیکن ایک بات اٹل ہے کہ تشدد کے لیے چاہے زیرو ٹالرینس ہو لیکن جب تشدد کو تشدد کے ذریعے ہی ختم کیا جانا شروع کر دیا جائے تو پھر کچھ نہیں ہو گا بلکہ معاملہ اور بڑھ جائے گا۔ اس کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوا۔ مل بیٹھ کر بات کرنے سے چیزوں کا حل نکلتا ہے، چاہے وہ قلیل المدتی ہوں یا طویل المدتی۔
 

nutral is munafek

Minister (2k+ posts)

عمران خان پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جائیگا​

ڈفرز یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں "فوجی عدالت"
کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
 

chandaa

Prime Minister (20k+ posts)
Pakistani kanjar fouj sab se bari choor hai. Inn ka aaj takk audit nahin hua aur yeh harami 2 laakh tankhawaa lainey waley Generals 20 arab dollars ke malick hotey hain retirement ke waqat.
 

Rambler

Chief Minister (5k+ posts)
کھوتے مراثی
جب عوام کا ہر دل عزیز لیڈر عمران خان آج بھی پر امن احتجاج سے آگے کوئی بات نہ کرے تو عوام کیا کرے؟

Jubb purr aman ahtejaj krney ko koi tayaar nhi to bandooqon ke samney pur tashaddud ajtejaj tera chacha kre ga besharam admi. Abhi yahan iss forum pe bahir bethe hoey log thread bna rhey heyn ke kaise VPN ke peechey chuppa jaey. Pehley tu kam kam az aik video to bna kr daal dey yaha foj ke khilaaf aur uss ke baad apney khandan ki aurton ko pakistan mein ahtejaj mein shirkat kra taake police waley un ke kaprey utaar skeyn phir yahan aa kr baat krna.
 

digitalzygot1

Minister (2k+ posts)
عمران خان کو دوسرا محمد مرسی بنانے کی تیاری ہوچکی ہے. آج قومی سلامتی کونسل میں اسکی منظوری دی جائیگی. قوم ستو پی کر سورہی ہے ہمارے پشتون بھائی بھی خاموش ہیں. خان آج اکیلا ہے اور اس قوم کو آزادی دلانے کی پاداش میں اسکو نشان عبرت بنانے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے. لعنت ہم سب پر جو خاموش ہیں کچھ مجبوری میں اور کچھ بے غیرتی میں

If that happens and shit hits the fan, he will be the first one to run.