battery low
Chief Minister (5k+ posts)

سیشن عدالت لاہور میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف 10 ارب ہرجانہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم شہباز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے جب کہ ان پر جرح کے دوران بجلی بند ہوگئی۔
ایڈیشنل سیشن جج شہباز شریف کے دائر دعوی پر سماعت کی، وزیر اعظم شہباز شریف بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے وکیل میاں محمد حسین چوٹیا وزیر اعظم شہباز شریف پر جرح کر رہے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے کمرہ عدالت میں جرح سے پہلے حلف لیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جو کہوں گا، سچ کہوں، غلط بیانی نہیں کروں گا، وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کا دعوی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعوا دائر نہیں ہوا، یہ میرا پاس لکھا ہے کہ دعوی ڈسٹرکٹ جج کے پاس دائر ہوا ہے۔
وکیل شہباز شریف نے کہا کہ یہ معاملہ پہلے ہی طے ہوچکا ہے، وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جرح کرنا میرا حق ہے، آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ نے دعوے میں کسی میڈیا ہاؤس کو فریق نہیں بنایا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات درست ہے، وکیل شہباز شریف نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے آپ پر دس ملین کا الزام آمنے سامنے نہیں لگایا۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ بیہودہ الزام بار بار ٹی وی پر دہرایا گیا۔
دوران سماعت وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ کیا میں پنجابی میں سوال کرسکتا ہوں، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ بڑے شوق سے کریں۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جن ٹی وی پروگرامز میں آپ پر الزام عائد کیے گئے وہ اسلام آباد سے آن ائیر ہوئے تھے، شہباز شریف نے جواب دیا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے کہ پروگرام کہاں سے آن ایئر ہوئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دوران جرح اس وقت میرا وکیل میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے، یہ درست ہے کہ جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں، وہاں مدعا علیہ عمران خان کا وکیل نہیں ہے، یہ درست ہے کہ صدر مملکت کو منظوری کیلئے بھجوانے سے پہلے تمام قوانین، رولز کا کابینہ جائزہ لیتی ہے، میں نے عمران خان کے خلاف ہرجانہ دعوی پر خود دستخط کئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ دعوی دائر کرنے سے پہلے میں نے ہتک عزت کا قانون 2002 پڑھا تھا کہ نہیں، دعوی کی تصدیق کیلئے اسٹام پیپر میرے وکیل کے ایجنٹ کے ذریعے خریدا گیا، مجھے دعوی کی تصدیق کرنے والے اوتھ کمشنر کا نام یاد نہیں ہے، دعوی کی تصدیق کیلئے اوتھ کمشنر خود میرے پاس آیا تھا، اوتھ کمشنر کی تصدیق کا دن اور وقت یاد نہیں لیکن وہ خود ماڈل ٹاؤن لاہور آیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ درست ہے کہ میں نے دعوی ڈسٹرکٹ جج کے روبرو دائر کیا ہے، ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر نہیں کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ ڈسٹرکٹ جج یا ڈسٹرکٹ کورٹ کے قانونی نقطہ کا فیصلہ متعلقہ جج کر چکی ہے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ میں نے دعوی میں کسی میڈیا ادارے، ملازم، آفیسر کو فریق نہیں بنایا، یہ درست ہے کہ عمران خان نے آج تک میرے آمنے سامنے یہ الزام نہیں لگایا، عمران خان نے یہ تمام الزام دو ٹی وی چینلز کے پروگرام پر لگائے، مجھے علم نہیں ہے کہ دونوں نیوز چینلز نے یہ ٹی وی پروگرام کس شہر سے نشر ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ دعوی دائر کرنے سے پہلے میں دونوں چینلز کے پروگرام کے نشر کرنے کے شہروں کی تصدیق نہیں کی،
دوران جرح عدالت کی بجلی چلی گئی اور جرح روک دی گئی، وزیر اعظم پر دوبارہ جرح 11 بج پر 50 منٹ پر شروع ہوئی، وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے علم نہیں کہ دونوں چینلز کا مالک یا ملازم عمران خان نہیں ہے، مجھے علم نہیں ہے کہ ہتک عزت قانون سے مواد شروع یعنی Originator کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ عمران خان نے آج تک آپکے خلاف ازخود بیان نشر یا شائع نہیں کیا، انہوں نے جواب دیا کہ عمران خان نے ٹی وی چینلز پر تمام الزامات خود ہی لگائے ہیں، مجھے علم نہیں ہے کہ عمران خان روزنامہ جنگ، پاکستان جیسے اخبارات کا مالک ہے یا نہیں۔
عمران خان کے وکیل نے سوال کیا کیا یہ درست ہے کہ بطور ایڈیشنل سیشن جج آج کی عدالت کو سماعت کا، شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار نہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل مصطفی رمدے نے عمران خان کے وکیل کے سوال پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ قانونی نقطہ طے ہو چکا ہے۔
عدالت نے وزیر اعظم شہباز شریف سے سوال کیا کہ کیا آپ اس نقطے کا جواب دینا چاہتے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ یہ غلط ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کو بطور ڈسٹرکٹ جج دعوی سماعت کرنے، شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ ہتک عزت قانون 2002 کی دفعہ 12 کا اطلاق کسی شخص کی ذات پر نہیں بلکہ صرف میڈیا ہائوسز کے اداروں، انکے ملازمین اور افسران پر ہوتا ہے، یہ غلط ہے کہ دعوی ایک پرائیویٹ شخص کیخلاف دائر کیا گیا ہے، اس لئے یہ قابل پیشرفت نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ میں 2017 میں جب الزام لگا تو مسلم لیگ نواز کا صدر تھا یا نہیں، یہ درست ہے کہ 2017 میں میرا مسلم لیگ نواز سے تعلق تھا، آج بھی ہے، یہ درست ہے کہ جب 2017 میں الزام لگا تو عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ درست ہے کہ جب سے عمران خان نے سیاست شروع کی، جماعت بنائی، تب سے ہی مسلم لیگ نواز کے حریف رہے ہیں، یہ درست ہے کہ عمران خان تحریک انصاف بننے سے لیکر آج تک کبھی مسلم لیگ نواز کے اتحادی نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ میں نے اسی لئے دعوی کے پیراگراف 3 میں مسلم لیگ نواز کے سیاسی حریف کے الفاظ لکھوائے تھے، یہ غلط ہے کہ سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کیخلاف سیاسی بیانات دیتے رہتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی آئندہ سماعت 25 اپریل 9 بجے تک ملتوی کردی گئی، باقی جرح آئندہ سماعت پر ہوگی۔
Source