
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی کال پر متنازع میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کے خلاف صحافیوں کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنا جاری ہے، سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے میں پہنچ گئے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت کے پیش کیے جانے والے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے قیام اور صحافیوں پر مبینہ غیر اعلانیہ پابندیوں کے خلاف صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے، حکومت کی جانب سے مجوزہ میڈیا اتھارٹی بل کو صحافتی تنظیموں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے صحافتی 'مارشل لا' کے مترادف قرار دیا ہے۔
صحافیوں کے احتجاجی دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اس کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہیں۔
حکومتی بل کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون ہوگا جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔
اس موقع پر سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ ملک میں میڈیا پر پہلے سے ہی پیمرا کے تحت سخت قوانین لاگو ہیں، وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں اس طرح کے بل کے متعارف کروانے کے بعد آزادی رائے پر کس قسم کی سختی کرنا چاہ رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے سپورٹ کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا تھا یہ علم نہیں تھا کہ ایسی تبدیلی ہو گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف سیاسی ادوار میں میڈیا اور صحافیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ شرمندگی کی بات نہیں ہے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا، انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ روایتی قسم کے سیاستدانوں کا اسٹیٹس کو ختم ہو رہا ہے اور ملک بہتری کی طرف جا رہا ہے لیکن اگر ملک کسی بھی صورت میں 40 سال پیچھے چل جائے تو میری شرمندگی یا افسوف سے کیا ہو گا۔
سینئیر اینکر 2018 کے الیکشن کی شفافیت کت حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2018 سمیت اس ملک میں کوئی بھی انتخابات شفاف نہیں ہوئے، انہوں نے مزید کہ اس ملک میں کوئی بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں بنتی۔
جب اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پوچھا گیا تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ کسی بھی ملک میں موجود صحافی، سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور دیگر عناصر ملتے ہیں تب اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس قسم کے قانون کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نہیں ہو سکتی، یہ قانون سراسر حکومت کی جانب سے متعارف کروایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ پی ڈی اے ’ایک آزاد، مؤثر اور شفاف‘ اتھارٹی ہو گی جو ہر قسم کے ذرائع ابلاغ بشمول ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی۔اس نئے قانون کے تحت پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں چلانے کے لیے باقاعدہ حکومت سے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔
مسودے کے مطابق کوئی بھی آن لائن اخبار، ویب ٹی وی چینل، آن لائن نیوز چینل، کسی بھی قسم کا ویڈیو لاگ، یو ٹیوب چینل، حتیٰ کہ نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم بھی ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہیں، جن کے لیے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔
مسودے میں ریاست کے سربراہ، مسلح افواج، ریاست کے قانون ساز اداروں اور عدالت کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کرنے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ اتھارٹی میڈیا کے اداروں سے مالی معاملات کی معلومات یا دیگر دستاویز بھی طلب کرنے کی مجاز ہو گی۔
اس کے علاوہ مسودہ میں کہا گیا ہے اتھارٹی سے لائسنس لینے والے اتھارٹی سے لکھا ہوا اجازت نامہ لیے بغیر کسی بھی غیر ملکی براڈ کاسٹر کو اپنا ایئر ٹائم نہیں دیں گے۔ ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تین سال تک کی سزا اور ڈھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/nPhn4Zg/dra.jpg