zaheer2003
Chief Minister (5k+ posts)
جب سے عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے پارٹی سے توبہ تائب ہونا شروع کیا ہے تب سے ایک بات تسلسل کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ عمران خان نے ایسے لوگوں کو اپنے قریب رکھ کر غلط کیا ، عمران خان کے تینوں وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے اہم لوگ چھوڑ کر چلے گئے ، انھوں نے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا ، وہ اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئے وغیرہ وغیرہپہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت ایک دور اندیش لیڈر کی مجموعی قومی مفادات کے پیش نظر چھوٹے کمپرومائز اور بڑے ویژن کی تکمیل کی عکاس ہے۔ نامساعد
حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فن صرف وہی جانتے ہیں۔ انسانی فطرت پہ تو کسی کو عبور نہیں کہ پرویز خٹک جا سکتا ہے اور پرویز الہی ڈٹ سکتا ہے
، یہ بندوں کا نہیں حالات کا دھارا ہے اور نشیب و فراز سیاسی عمل کا خاصہ ہیں۔ عمران خان کی ستائیس سالہ سیاست انھی یوٹرن سے عبارت ہیں جن کو انھوں نے سیڑھی کی طرح استعمال کیا۔ انھیں مکمل سیاسی نظام بدلنا تھا تو کیچڑ میں اترے بغیر اور چھینٹے پڑے بغیر صفائی ممکن نہ تھی سو انھوں نے قائد اعظم کے 1945-46 کے الیکشن کی طرح سرمایہ داروں اور الیٹکٹیبلز کو ساتھ ملایا اور اس وقت کی عوامی مزاج کی سیاست کے پرزے جوڑ کر ایک انوکھی سیاست کی بنیاد رکھی جس نے بڑی تیزی سے علاقائی ، قبائلی اور انفرادی سیاست کو زمین بوس کر دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں زیادہ فرق نہ ہوتا۔ عمران خان کو 2018 میں حکومت ملی تو انھوں نے اسی لولی لنگڑی حکومت کو چھوٹے کمپرومائز کے تحت برقرار رکھ کر ساڑھے تین سالوں میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو پچہتر سالوں کے خواب تھے۔ اربوں ڈالر کے تجارتی اور بجٹ خسارے ، کرنٹ اکاؤنٹ
ڈیفیسٹ ، اربوں ڈالر کا قرضہ ، خارجہ محاذ پہ رسوئی۔۔۔ جیسے حالات کا رخ اچانک پلٹا اور یہ سفر استحکام کی جانب بڑھنے لگا اور پھر صدی کی سب سے بڑی وبا کو جھیل کر معیشت چھے فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرنے لگی ، نوے کی دہائی سے بند پاور لومز چل پڑیں ، بڑی صنعتوں ، زراعت اور دیگر تمام شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برآمدات کو تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچایا گیا ، چالیس سال سے بند پڑے دس میگا ڈیمز پہ کام کا آغاز ، اسپیشل اکنامک زونز ، نالج اکانومی کے تحت سو ارب کے منصوبے ، ایشیا کا سب سے بڑا رفاعی پروگرام یعنی احساس پروگرام سمیت انھوں نے داخلہ و خارجہ محاذ پہ پاکستان کو وہ عزت و مقام دلایا جس کے خواب پچہتر سالوں سے دیکھے جا رہے تھے۔ یہ سب کچھ ممکن
نہ ہوتا اگر عمران خان کچھ چھوٹے یو ٹرن نہ لیتے ۔ مثلاً انھوں نے روایتی سیاست کا گلا گھونٹتے ہوئے پنجاب میں خاندانی سیاست کو زمین بوس کرتے ہوئے پارٹی میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں لگے ہوئے تمام بت پاش پاش کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جسے کوئی جانتا بھی نہ تھا ۔ عثمان بزدار ان کا رشتہ دار تھا نہ دوست ، نہ بانی رکن نہ پارٹی کا کوئی پرانا ورکر لیکن عمران خان نے بارہ کروڑ عوام کے مجموعی مفاد اور قومی سیاست کو بدلنے کے عزم کے تحت یہ فیصلہ کیا اور اسی بزدار سے اپنی ٹیم کے زریعے وہ کام لیا جو شریف خاندان پنجاب میں
چالیس سال سے بھی نہ کر پائے ۔ اسی طرح انھوں نے خیبرپختونخوا میں مقامی سیاست کی نبض کو پہچاننے والے پرویز خٹک کو ایک بار تو وزیر اعلیٰ بنایا اور وہاں کی سیاست کو قابو کیا لیکن اگلی دفعہ اس کی بجائے محمود خان کو بنایا جو بہرکیف عثمان بزدار کا ہی ایک اپڈیٹڈ ورژن تھا۔ اسی طرح انھوں نے آزاد کشمیر میں بھی بت پاش پاش کیے۔ بظاہر یہ فیصلہ کافی احمقانہ تھے لیکن وہ شخصیات کے بجائے نظریات کو پروان چڑھانے کا سوچ چکے تھے لہذا یہ قربانیاں دے کر سیاسی استحکام پیدا کیا اور بڑے مقاصد پہ فوکس کیا۔ عمران خان جانتے تھے
کہ 2018 میں اسٹبلشمنٹ نے آر ٹی ایس سسٹم بند کر کے ان کی سیٹیں کم کی ہیں اور اتحادی تھمائے ہیں لیکن انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے مجموعی قومی مفادات پہ فوکس کیا جیسے سی پیک اتھارٹی فوج کے حوالے ، باجوہ کے مشورے پہ الیکشن کمیشن کا انتخاب ، باجوہ کی ایکسٹینشن وغیرہ۔ یقیناً یہ بھی غلط فیصلے تھے جن کا اعتراف وہ بھی برملا کرتے ہیں لیکن مجموعی قومی مفاد میں وہ یہی فیصلہ لیتے۔ تاہم انھوں نے عوامی حاکمیت یا ملکی سلامتی پہ کمپرومائز نہیں کیا اور اسے اپنی حکومت سے بڑھ کر ترجیح دی۔ انڈیا نے حملہ کیا تو بقول ایاز صادق باجوہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں لیکن عمران خان نے براہ راست پاک فضائیہ کو حکم دے کر جوابی دراندازی کی اور بھارتی جہاز گرائے۔ بقول احسن اقبال , اسکے بعد ہی باجوہ نے اپوزیشن سے رابطہ کیا کہ یہ ہمیں بائی پاس کر رہا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر میں فوج کے بغیر الیکشن کروائے۔
حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فن صرف وہی جانتے ہیں۔ انسانی فطرت پہ تو کسی کو عبور نہیں کہ پرویز خٹک جا سکتا ہے اور پرویز الہی ڈٹ سکتا ہے
، یہ بندوں کا نہیں حالات کا دھارا ہے اور نشیب و فراز سیاسی عمل کا خاصہ ہیں۔ عمران خان کی ستائیس سالہ سیاست انھی یوٹرن سے عبارت ہیں جن کو انھوں نے سیڑھی کی طرح استعمال کیا۔ انھیں مکمل سیاسی نظام بدلنا تھا تو کیچڑ میں اترے بغیر اور چھینٹے پڑے بغیر صفائی ممکن نہ تھی سو انھوں نے قائد اعظم کے 1945-46 کے الیکشن کی طرح سرمایہ داروں اور الیٹکٹیبلز کو ساتھ ملایا اور اس وقت کی عوامی مزاج کی سیاست کے پرزے جوڑ کر ایک انوکھی سیاست کی بنیاد رکھی جس نے بڑی تیزی سے علاقائی ، قبائلی اور انفرادی سیاست کو زمین بوس کر دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آج تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں زیادہ فرق نہ ہوتا۔ عمران خان کو 2018 میں حکومت ملی تو انھوں نے اسی لولی لنگڑی حکومت کو چھوٹے کمپرومائز کے تحت برقرار رکھ کر ساڑھے تین سالوں میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو پچہتر سالوں کے خواب تھے۔ اربوں ڈالر کے تجارتی اور بجٹ خسارے ، کرنٹ اکاؤنٹ
ڈیفیسٹ ، اربوں ڈالر کا قرضہ ، خارجہ محاذ پہ رسوئی۔۔۔ جیسے حالات کا رخ اچانک پلٹا اور یہ سفر استحکام کی جانب بڑھنے لگا اور پھر صدی کی سب سے بڑی وبا کو جھیل کر معیشت چھے فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرنے لگی ، نوے کی دہائی سے بند پاور لومز چل پڑیں ، بڑی صنعتوں ، زراعت اور دیگر تمام شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برآمدات کو تاریخ کی بلند ترین سطح پہ پہنچایا گیا ، چالیس سال سے بند پڑے دس میگا ڈیمز پہ کام کا آغاز ، اسپیشل اکنامک زونز ، نالج اکانومی کے تحت سو ارب کے منصوبے ، ایشیا کا سب سے بڑا رفاعی پروگرام یعنی احساس پروگرام سمیت انھوں نے داخلہ و خارجہ محاذ پہ پاکستان کو وہ عزت و مقام دلایا جس کے خواب پچہتر سالوں سے دیکھے جا رہے تھے۔ یہ سب کچھ ممکن
نہ ہوتا اگر عمران خان کچھ چھوٹے یو ٹرن نہ لیتے ۔ مثلاً انھوں نے روایتی سیاست کا گلا گھونٹتے ہوئے پنجاب میں خاندانی سیاست کو زمین بوس کرتے ہوئے پارٹی میں وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں لگے ہوئے تمام بت پاش پاش کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جسے کوئی جانتا بھی نہ تھا ۔ عثمان بزدار ان کا رشتہ دار تھا نہ دوست ، نہ بانی رکن نہ پارٹی کا کوئی پرانا ورکر لیکن عمران خان نے بارہ کروڑ عوام کے مجموعی مفاد اور قومی سیاست کو بدلنے کے عزم کے تحت یہ فیصلہ کیا اور اسی بزدار سے اپنی ٹیم کے زریعے وہ کام لیا جو شریف خاندان پنجاب میں
چالیس سال سے بھی نہ کر پائے ۔ اسی طرح انھوں نے خیبرپختونخوا میں مقامی سیاست کی نبض کو پہچاننے والے پرویز خٹک کو ایک بار تو وزیر اعلیٰ بنایا اور وہاں کی سیاست کو قابو کیا لیکن اگلی دفعہ اس کی بجائے محمود خان کو بنایا جو بہرکیف عثمان بزدار کا ہی ایک اپڈیٹڈ ورژن تھا۔ اسی طرح انھوں نے آزاد کشمیر میں بھی بت پاش پاش کیے۔ بظاہر یہ فیصلہ کافی احمقانہ تھے لیکن وہ شخصیات کے بجائے نظریات کو پروان چڑھانے کا سوچ چکے تھے لہذا یہ قربانیاں دے کر سیاسی استحکام پیدا کیا اور بڑے مقاصد پہ فوکس کیا۔ عمران خان جانتے تھے
کہ 2018 میں اسٹبلشمنٹ نے آر ٹی ایس سسٹم بند کر کے ان کی سیٹیں کم کی ہیں اور اتحادی تھمائے ہیں لیکن انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے مجموعی قومی مفادات پہ فوکس کیا جیسے سی پیک اتھارٹی فوج کے حوالے ، باجوہ کے مشورے پہ الیکشن کمیشن کا انتخاب ، باجوہ کی ایکسٹینشن وغیرہ۔ یقیناً یہ بھی غلط فیصلے تھے جن کا اعتراف وہ بھی برملا کرتے ہیں لیکن مجموعی قومی مفاد میں وہ یہی فیصلہ لیتے۔ تاہم انھوں نے عوامی حاکمیت یا ملکی سلامتی پہ کمپرومائز نہیں کیا اور اسے اپنی حکومت سے بڑھ کر ترجیح دی۔ انڈیا نے حملہ کیا تو بقول ایاز صادق باجوہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں لیکن عمران خان نے براہ راست پاک فضائیہ کو حکم دے کر جوابی دراندازی کی اور بھارتی جہاز گرائے۔ بقول احسن اقبال , اسکے بعد ہی باجوہ نے اپوزیشن سے رابطہ کیا کہ یہ ہمیں بائی پاس کر رہا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور کشمیر میں فوج کے بغیر الیکشن کروائے۔
Last edited by a moderator: