عیب لگانے والے

saud491

MPA (400+ posts)



وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿١﴾ سورة الهمزة

ترجمہ

ہلاکی ہو ہر اشارہ باز، عیب جُو کے لیے


!
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت

ایک ہی کردار کے دو پہلو: ہَمْزٌ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور لَمْزٌ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ہُمَزَۃٌ اور لُمَزَۃٌ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورہ میں آگے حُطَمَۃٌ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔ ہُمَزَۃٌ کے معنی اشارہ باز اور لُمَزَۃٌ کے معنی عیب جُو اور عیب چیں کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور عیب جُوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا ہتک کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہُمَزَۃٌ کو مقدم رکھا ہے۔
ہمز و لمز کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے:

وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات 11:49) اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو۔

دعوت حق کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے: لیکن جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اِس زمانے میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم بھی ہوتے ہیں اور کارٹون بھی چھپتے ہیں جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنے سرپرستوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے گنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مسلمانوں کی تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالصَّبْرِ کی دعوت کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے اس زمانے کے پیشہ ور لیڈر اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے اختیار کرتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی:

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۵ ہَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِیْمٍ ۵ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۵ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیْمٍ ۵ أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ (القلم 14-10:68) اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا۔

ترجمہ و تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی






 

saud491

MPA (400+ posts)
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔اور کسی کے عیوب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگے رہو۔ ۔(بخاری ، جلد سوم:حدیث ۱۰۰۴)


(عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَنَافَسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا) (مسلم:6701)
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم بد گمانی سے بچو۔ کیوں کہ بد گمانی سب سے بڑ اجھوٹ ہے۔ اور عیبوں کی ٹوہ مٹ لگاؤ اور نہ جاسوسی کرو۔ اور نہ دوسرے کا حق غصب کرنے کی حرص اور اس کے لیے کوشش کرو۔ نہ ایک دوسرے سے حسد کرو۔ نہ باہم بغض رکھو۔نہ ایک دوسرے کو پیٹھ دکھاؤ۔ اور اے اللہ کے بندو! تم بھائی بھائی ہو جاؤ۔

عن معاوية رضی الله عنه قال:سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول:إنك إن اتبعت عورات المسلمين، أفسدتهم أو كدت أن تفسدهم) (أبوداؤد: 4888) حدیث صحیح)
"حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا، آپ فرماتے تھے کہ:"اگر تو مسلمانوں کے عیبوں کی تلاش میں رہےگا تو ان کے اندر بگاڑ پیداکرےگا یا قریب ہے کہ تو ان کے اندر فساد پیداکردےگا۔"

عن ابی هريرة ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم قال: اياکم والظن، فان الظن اکذب الحديث. ولا تجسسوا ولا تحسسوا ولا تنافسوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللّٰه اخوانا.(موطا امام مالك)
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سے زیادہ بے بنیاد چیز کوئی نہیں۔ ٹوہ میں رہنے اور کان لگانے سے احتراز کرو۔ دنیا کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش نہ کرو۔ دوسروں سے حسد نہ کرو۔ آپس میں بغض و کینہ نہ رکھو۔ ایک دوسرے کے دشمن نہ بنو، ان برائیوں سے بچ کر اللہ کے بندے بن جاؤ اور آپس میں بھائیوں کی طرح رہو۔



ابوداؤد کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

يا معشر، من اٰمن بلسانه ولم يدخل الايمان قلبه لا تتبعوا عورات المسلمين. فإنه من اتبع عوراتهم يتبع اللّٰه عورته و من يتبع اللّٰه عورته يفضحه فی بيته.(ابوداؤد،رقم٤٨٨٠)
''اے وہ لوگو، جو زبان سے ایمان لے آئے ہو، مگر جن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج نہ لگایا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے رازوں کے درپے ہو گا اللہ اس کے درپے ہو جائے گا۔ اور اللہ جس کے درپے ہو جائے اس کو اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے۔

 

saud491

MPA (400+ posts)


لا تغتابوا المسلمین و لا تتبعوا عوراتھم۔ فان من اتبع عوراتہم یتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ۔ (قرطبی)

مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو۔ کیونکہ جو شخص ان کے عیوب کی تلاش کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیب کی تلاش کرتا ہے۔ اور جس کے عیب کی تلاش اللہ تعالی کرے، اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کر دیتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا تیرے مسلمان بھائ کی زبان سے جو کلمہ نکلا ہو جہاں تک ہوسکے اسے بھلائ اور اچھائ پر محمول کر۔ تفسیر ابن کثیر سورہ الحجرات



عبد الرزاق نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگوں کا محاسبہ اور مؤاخذہ وحی کے ذریعہ ہوجاتاتھا؛مگر اب وحی الٰہی کا سلسلہ منقطع ہو چکاہے۔ چنانچہ اب ہم تم لوگوں کے ظاہری اعمال ہی پر حکم لگائیں گے۔ لہذا جس کے اعمال بظاہر اچھے ہیں، تو سمجھو ہم نے اس کو مامون رکھا اور اس کو قریب کرلیا اور ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ ہم ان کے ٹوہ میں لگ جائیں اور عیب جوئی کریں۔ اللہ ان کے پوشید ہ اعمال کا محاسب ہے۔ اور جس شخص کا ظاہری عمل برا ہو، تو ہم نہ اسے امن دیں گے، نہ اس کی تصدیق کریں گے۔ اگرچہ اندرونی طورپر وہ اچھا آدمی ہو۔