آج کل آپ کوئی بھی یوٹیوب ویڈیو دیکھتے ہیں تو اس میں بہ کثرت ایسے ویڈیو اشتہارات آرہے ہیں جس میں پہلے یا تو کوئی فلسطینی بچہ روتا ہوا دکھا یا جاتا ہے یا پھر کوئی بدحال عورت ٹسوے بہارہی ہوتی ہے یا پھر کوئی پھٹے حالوں فلسطینی کھڑا ہوکر کہہ رہا ہوتا ہے، ہمیں بھیک چاہئے، ہمیں بھیک چاہئے، ہم مررہے ہیں، خدا کیلئے ہماری مدد کرو، ہمیں بھیک دو، ہمیں بھیک دو۔ آپ ایک بات نوٹ کریں گے کہ مسلم دنیا میں بھیک مانگنے کو ذرا بھی برا نہیں سمجھا جاتا۔ مسلم دنیا میں غیرت کا جو معیار ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ نے دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے بھلے بعد میں آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو دنیا بھر میں بھیک مانگنی پڑے۔ افغانستان میں دیکھ لیں، ملا عمر اور افغانیوں کیلئے امریکہ کے ساتھ ٹکر لینا غیرت کی بات تھی، اس کے بعد بھلے پوری افغان قوم کتوں کی طرح ذلیل ہوتی رہی اور لاکھوں افغان پاکستان کے ٹکڑوں پر پلتے رہے۔ پاکستان میں آپ دیکھ لیں، نہ صرف پیشہ ور بھکاریوں کی بہتات ہے بلکہ آپ کو ہر شخص کسی نہ کسی صورت بھیک مانگتا نظر آئے گا۔ ادھار مانگنا تو تقریباً ہر پاکستانی مسلمان کی فطرت ہے ، جبکہ ادھار کسی بھی طرح بھیک سے مختلف نہیں ہے کیونکہ 99 فیصد لوگ ادھار لینے کے بعد واپس نہیں کرتے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بے چارے غزہ کے لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ بھیک مانگ رہے ہیں تویہ سراسر غلط ہے۔ غزہ کے لوگوں کی اپنی چوائس ہے کہ انہوں نے بھیک مانگنا قبول کیا۔ نہ وہ اسرائیل پر حملہ کرتے اور نہ ان پر بھیک مانگنے کی نوبت آتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے بھیک مانگنا کوئی بری بات ہے ہی نہیں۔ حالانکہ کسی بھی مہذب قوم کیلئے بھیک مانگنا سب سے بڑی بے غیرتی کی بات ہونی چاہئے۔ افغانستان کے لوگوں کے پاس بھی چوائس تھی وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرتے اور عزت کی زندگی گزارتے رہتے، مگر انہوں نے بے عزتی اور بے غیرتی کی زندگی قبول کی۔ ملا عمر کے اس فیصلے کے بعدافغان دربدر ہوگئے اپنے عورتوں اور بچوں کو لے کر پاکستان میں بھکاریوں جیسی زندگی گزارتے رہے۔
فلسطنیوں کے ایک غلط فیصلے کا نتیجہ کیا نکلا ہے سب کے سامنے ہے، غزہ کے سارے کے سارے لوگ بھکاری بن گئے ہیں، جہاں کہیں کوئی امدادی ٹیم کھانا تقسیم کررہی ہوتی ہے وہاں یہ لائن بنا کرہاتھ میں ٹوٹے پھوٹے برتن پکڑ کر بھیک لینےکیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی جہاز کے ذریعے ان بھکاریوں پر کھانے پینے کی چیزیں پھینکی جاتی ہیں۔ پانی تک کیلئے یہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی ذی شعور قوم ہوتی تو اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے دو جمع دو چار کرتی اور اس کے سامنے تصویر واضح ہوجاتی کہ حملے کے بعد ہمارا یہ حال ہوگا ، پھر وہ کبھی ایسی حماقت نہ کرتی۔ مگر انہوں نے عزت پر ذلت کو ترجیح دی کیونکہ بھیک مانگنا تو مسلمانوں کیلئے کوئی بری بات ہے ہی نہیں۔۔
ہر قوم کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، قوموں کے فیصلے ان کی تقدیر بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ مسلم دنیا کیلئے جب تک بھیک مانگنا موت کے برابر نہیں ہوگا، تب تک یہ لوگ دنیا بھر میں کتوں کی طرح ذلیل ہی ہوتے رہیں ، کیونکہ یہ ہمیشہ اپنے وسائل سےبڑھ کر بچے پیدا کرتے ہیں، اپنے معاشرے عقلی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیتے ہیں۔ اگر کسی قوم کیلئے بھیک مانگنا موت کے برابر ہو تو وہ کبھی ایسے فیصلے نہ کرے جو ان کو بھیک مانگنے کی نوبت پر لے آئیں۔ صرف غزہ ، افغانستان یا پاکستان کی بات نہیں، آپ باقی مسلم ممالک پر نظر دوڑالیں، سوائے ان چند ممالک کے جن کے پاس قدرتی تیل کی دولت موجود ہے، باقی سب بھکاری ہیں۔ ان بھکاری ممالک سے کشتیاں بھر بھر کر لوگ پھر یورپ اور امریکہ جانے کیلئے جان تک کی بازی لگادیتے ہیں۔ یہ بھکاری صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دیگر دنیا کیلئے بھی عذاب ہیں۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بے چارے غزہ کے لوگوں کی مجبوری ہے کہ وہ بھیک مانگ رہے ہیں تویہ سراسر غلط ہے۔ غزہ کے لوگوں کی اپنی چوائس ہے کہ انہوں نے بھیک مانگنا قبول کیا۔ نہ وہ اسرائیل پر حملہ کرتے اور نہ ان پر بھیک مانگنے کی نوبت آتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کیلئے بھیک مانگنا کوئی بری بات ہے ہی نہیں۔ حالانکہ کسی بھی مہذب قوم کیلئے بھیک مانگنا سب سے بڑی بے غیرتی کی بات ہونی چاہئے۔ افغانستان کے لوگوں کے پاس بھی چوائس تھی وہ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرتے اور عزت کی زندگی گزارتے رہتے، مگر انہوں نے بے عزتی اور بے غیرتی کی زندگی قبول کی۔ ملا عمر کے اس فیصلے کے بعدافغان دربدر ہوگئے اپنے عورتوں اور بچوں کو لے کر پاکستان میں بھکاریوں جیسی زندگی گزارتے رہے۔
فلسطنیوں کے ایک غلط فیصلے کا نتیجہ کیا نکلا ہے سب کے سامنے ہے، غزہ کے سارے کے سارے لوگ بھکاری بن گئے ہیں، جہاں کہیں کوئی امدادی ٹیم کھانا تقسیم کررہی ہوتی ہے وہاں یہ لائن بنا کرہاتھ میں ٹوٹے پھوٹے برتن پکڑ کر بھیک لینےکیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی جہاز کے ذریعے ان بھکاریوں پر کھانے پینے کی چیزیں پھینکی جاتی ہیں۔ پانی تک کیلئے یہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی ذی شعور قوم ہوتی تو اسرائیل پر حملہ کرنے سے پہلے دو جمع دو چار کرتی اور اس کے سامنے تصویر واضح ہوجاتی کہ حملے کے بعد ہمارا یہ حال ہوگا ، پھر وہ کبھی ایسی حماقت نہ کرتی۔ مگر انہوں نے عزت پر ذلت کو ترجیح دی کیونکہ بھیک مانگنا تو مسلمانوں کیلئے کوئی بری بات ہے ہی نہیں۔۔
ہر قوم کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے، قوموں کے فیصلے ان کی تقدیر بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ مسلم دنیا کیلئے جب تک بھیک مانگنا موت کے برابر نہیں ہوگا، تب تک یہ لوگ دنیا بھر میں کتوں کی طرح ذلیل ہی ہوتے رہیں ، کیونکہ یہ ہمیشہ اپنے وسائل سےبڑھ کر بچے پیدا کرتے ہیں، اپنے معاشرے عقلی بنیادوں پر تشکیل نہیں دیتے ہیں۔ اگر کسی قوم کیلئے بھیک مانگنا موت کے برابر ہو تو وہ کبھی ایسے فیصلے نہ کرے جو ان کو بھیک مانگنے کی نوبت پر لے آئیں۔ صرف غزہ ، افغانستان یا پاکستان کی بات نہیں، آپ باقی مسلم ممالک پر نظر دوڑالیں، سوائے ان چند ممالک کے جن کے پاس قدرتی تیل کی دولت موجود ہے، باقی سب بھکاری ہیں۔ ان بھکاری ممالک سے کشتیاں بھر بھر کر لوگ پھر یورپ اور امریکہ جانے کیلئے جان تک کی بازی لگادیتے ہیں۔ یہ بھکاری صرف اپنے لئے نہیں بلکہ دیگر دنیا کیلئے بھی عذاب ہیں۔
