غیر مسلم / کافر سے دوستی
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾ سورة الممتحنة
ترجمہ
اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت
ممانعت کے حدود کی تعیین: برّ کی تحقیق سورۂ بقرہ کی آیت 44 کی تفسیر کے تحت گزر چکی ہے۔ (ملاحظہ ہو تدبر قرآن جلد اول، صفحات 144-143) اس کے معنی صلۂ رحم، احسان اور ادائے حقوق کے ہیں۔ اقساط کے معنی عدل و انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی جس کا جو حق واجب ہے وہ پورا پورا ادا کیا جائے، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جائے۔
فرمایا کہ تمہیں یہ حکم جو دیا گیا ہے کہ
لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ (1) (میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ)
تو اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ تم ان کفار کے ساتھ احسان اور عدل بھی نہ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں نہ تم سے جنگ کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ ممانعت جس چیز کی کی جا رہی ہے وہ، جیسا کہ آگے والی آیت میں تصریح آ رہی ہے، موالات کی ہے نہ کہ عدل و احسان کی اور یہ ممانعت بھی تمام کفار کے حق میں نہیں بلکہ صرف ان کے حق میں ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی اور تم کو جلاوطن کیا۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------
]موالات کے معنی: دوستی رکھنا، اتحاد یا دوستی، آپس کی دوستی، محبت، میل ملاپ، وفاداری۔
[http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=%D9%85%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AA
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دین کی قید سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ یہاں زیربحث وہ نزاعات نہیں ہیں جو خاندانی و قومی مفادات کے تصادم سے آپس میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں بلکہ صرف وہ جنگ مراد ہے جو محض دین کی مخالفت میں کفار نے برپا کی اور جس سے مقصود ان کا لوگوں کو اللہ واحد کی بندگی سے روکنا تھا۔ دین تمام اہل ایمان کی مشترک متاع ہے اور اسی پر ان کی نجات وفلاح کا انحصار ہے اس وجہ سے کوئی مسلمان دین کے دشمنوں کے ساتھ دوستی رکھتا ہے تو وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹا ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب:
اِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔ یہ انصاف کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جب برّ اور قسط دو چیزوں کا ذکر آیا ہے تو مناسب تھا کہ یہاں دونوں نیکیوں کے کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی، صرف عدل کرنے والوں ہی کی محبوبیت کا ذکر کیوں آیا؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ صلۂ رحم وغیرہ کے قسم کی نیکیاں نفس پر اتنی بھاری نہیں ہیں جتنی عدل و انصاف کے قسم کی نیکیاں ہیں، بالخصوص جب کہ ان کا تعلق کفار سے ہو۔ کمزوروں کو سہارا دے دینا، محتاجوں کی مدد کر دینا اور اپنے کافر ماں باپ کے ساتھ صلۂ رحم کر دینا زیادہ مشکل کام نہیں ہیں۔ انسانی فطرت کے اندر ان کے لیے نہایت قوی محرکات موجود ہیں لیکن عدل و انصاف کاحق ادا کرنا اور وہ بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں، کوئی سہل بازی نہیں ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے ان لوگوں کو اپنی محبوبیت کا خاص مقام بخشا جو یہ بازی کھیلیں گے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ قیام عدل و قسط اس امت کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جو لوگ دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ یکساں انصاف کریں گے وہی اس امت کے گل سرسبد ہیں اور وہی اللہ کو محبوب ہیں۔ یہ حق ادا کیے بغیر دوسری نیکیاں بالکل بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّـهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٩﴾ سورة الممتحنة
ترجمہ
اللہ بس ان لوگوں سے تم کو موالات کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہے۔ اور جو اس طرح کے لوگوں سے دوستی کریں گے تو وہ اپنے ہی اوپر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت
روکا کن سے اور کس چیز سے گیا ہے؟ یہ صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ اللہ تم کو کن لوگوں سے روکتا ہے اور خاص طور پر کس چیز سے روکا ہے۔ فرمایا کہ روک ان لوگوں سے رہا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے یا تمہارے نکالنے میں تمہارے دشمنوں کی مدد کی ہے۔ اور روک جس چیز سے رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان کو اپنا دوست بناؤ۔ دوست بنانے سے مقصود ظاہر ہے کہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ملت کے مفاد سے قطع نظر کر کے کسی معاملے میں اپنا دست تعاون اس غرض سے ان کو پیش کرو کہ وہ تمہاری کوئی ذاتی غرض پوری کرنے کا ذریعہ بنیں۔
اس آیت پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں جو حضر ہے اس کا زور اَنْ تَوَلَّوْہُمْ پر ہے یعنی ممنوع جو چیز ہے وہ تَوَلّی یعنی ان کفار کو دوست اور کارساز بنانا ہے نہ کہ ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنا۔
نیکی ایک یک طرفہ عمل ہے۔ اس کا انحصار اس شخص کے رویہ پر نہیں ہوتا جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ایک شخص حاجت مند ہے تو ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم اس کی مدد کریں، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان۔ اور ہمارے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس سے نہ کسی شکریہ کے طالب ہوں نہ کسی صلہ کے لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدہر 9:76)۔ یہاں تک کہ اگر کسی سبب سے اس کے خلاف ہمارے دل میں عداوت بھی ہو جب بھی ہمارے لیے صحیح رویہ یہی ہے کہ ہم اس کے ساتھ نیکی کریں۔ اس طرح کی نیکی کا ہم کو، جیسا کہ قرآن و حدیث میں تصریح ہے، زیادہ ثواب ملے گا۔
رہا عدل و قسط کا معاملہ تو اس کی بنیاد قانون، معاہدے اور معروف پر ہوتی ہے۔ اس میں کافر و مومن یا دوست و دشمن کے امتیاز کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ قانون اور معاہدے کا جو تقاضا ہو گا وہ بہرحال پورا کرنا ہو گا اس سے بحث نہیں کہ معاملہ دوست کا ہے یا دشمن کا۔ آگے کفار قریش کے ساتھ چند نزاعات کا فیصلہ آ رہا ہے اور اس میں آپ دیکھیں گے کہ کس طرح قرآن نے بے لاگ فیصلہ کیا ہے اور اسی بے لاگ فیصلہ پر عمل کرنے کی مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے۔
وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔ یعنی اس تنبیہ کے بعد بھی جو مسلمان ان کافروں سے موالات کریں گے وہ یاد رکھیں کہ نہ وہ خدا کا کچھ بگاڑیں گے نہ اسلام کا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنیں گے۔
اقتباس: تدبر قرآن تفسیرسورة الممتحنة - مولانا امین احسن اصلاحی