فدائے ملت ، سیالکوٹین پاکستان کے قلم سے

ifteeahmed

Chief Minister (5k+ posts)
10917034_614276022007640_2152377847713843794_n.jpg


کسے معلوم تھا کہ یہ کھلنڈرا سا نوجوان باؤلر پاکستان کا عظیم ترین کھلاڑی اور گزشتہ صدی کا سب سے بہترین کپتان بنے گا ۔وہ عمران خان جسے اسکے ہم عصر کہا کرتے تھے کہ تم بیٹنگ کر سکتے ہو مگر باؤلر نہیں بن سکتے ۔اور جب وہ باؤلر بن گیا تو کہنے لگے کہ تم فاسٹ باؤلر نہیں بن سکتے کیوں کہ عمران خان کے بازو میں ہلکا سا خم تھا ۔

مگر عمران خان نے اپنی محنت اور جفاکش ورزش سے دینا کا تیز ترین باؤلر بن کر دکھایا ۔اسی عمران خان کو کہا گیا کہ تم ورلڈ کپ نہیں جیت سکتے بلکہ ستم ظریفی یہ کہ کچھ دوستوں نے مشورہ دے دیا جب واپس وطن پہنچو تو ائیر پورٹ کے پچھلے گیٹ سے عزت بچا کر نکل جانا ۔

مگر چشم فلک نے دیکھا کہ وہی عمران خان ورلڈ کپ کے فائنل میں جیت کی ٹرافی لئے کھڑا تھا اور وہیں ڈائیس پر کھڑے ہو کر اس نے اپنی مرتی ہوئی ماں کے اذیت ناک آنسؤں کو یادوں کے دریچے میں دہراتے ہوئے پوری دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ وہ اپنی ماں کے نام پر ایک اسپتال بنائے گا جس میں میرے وطن کے غریبوں کا علاج مفت ہوگا ۔
جب عمران خان نے پاکستان پہنچ کر اسپتال بنانے کے عزم کو حقیت کا روپ دینا شروع کرنا چاہا تو اسکے اپنوں نے اسکا مذاق اڑایا اسکا ٹھٹھا لگایا کہ اول تو پاکستان میں اس لیول کا اسپتال بننا ممکن ہی نہیں ہے۔اگر فرض کرو کینسر اسپتال بن گیا تو مفت علاج تو ممکن ہی نہیں ہے ۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک دن عوام کے اعتماد اور عوام پاکستان کی محبت نے یہ دن دکھلایا کہ اس عظیم الشان اسپتال میں غرباء و مستحقین کا علاج مفت ہونے لگا ۔

عمران خان نے جب دیکھا کہ پاکستان کے سیاست دان باری باری اس ملک کو لوٹ لوٹ کر کھوکھلا کر چکے ہیں اور اس ملک کے غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک منتقل کر رہے ہیں ۔تو اس نے سیاست میں قدم دھرنے اور اسی گٹر میں اتر کر اس کو صاف کرنے کی ٹھانی۔شروع شروع میں ایسا وقت آیا کہ اکیلا عمران خان ہی تحریک انصاف میں رہ گیا ۔

پھر الیکشن میں صرف ایک سیٹ پر اکتفا کرنا پڑا ۔مگر کپتان نے ہمت نہ ہاری اور اس قوم کے نوجوانوں کو سیاست کے گر سکھاتا رہا ۔مشرف دور میں عمران خان نے مشرف کا ساتھ صرف اس لئے دیا کہ مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا تھا کہ سبھی کا احتساب ہوگا ۔

مگر جب کپتان نے دیکھا کہ وہ صرف اور صرف ایک کھوکھلا نعرہ اور جھوٹا وعدہ تھا تو کپتان نے مشرف حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ۔حالانکہ مشرف نے عمران خان کو وزارت اعظمی کی پیشکش بھی کی تھی ۔

مگر کپتان نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اگر میں وزیر اعظم بنوں گا تو عوام کے ووٹ کی طاقت سے ۔چور دروازے سے وزیر اعظم بننے سے بہتر ہے کہ بندہ کسی سکول میں چپڑاسی لگ جاۓ ۔اسی اثناءمیں عمران خان نوجوانوں کو سیاست کی طرف لانے میں لگا رہا اور ان میں سیاست کا شعور اجاگر کرتا رہا جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی ملی ۔

اسی عرصہ میں عمران خان کا اپنا گھر بھی تباہ ہو گیا ، طلاق کے بعد بچے برطانوی قانون کے تحت بیوی کے پاس چلے گئے ۔لیکن عمران خان ایک حوصلہ مند پہاڑ کی طرح وقت اور حالات کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور اس نے ہار نہیں مانی۔عمران خان کے مخالفین اسے تانگہ پارٹی کا تعنہ دیتے رہے کہ تمھارے پاس تو اپنے تانگے کی سواریاں بھی پوری نہیں ہے تم نے سیاست خاک کرنی ہے۔

عمران خان کی ایک بات جو سچ ثابت ہوئی ۔کپتان کہا کرتا تھا کہ ابھی میرے سپورٹرز بچے ہیں ان کو ذرا بڑا ہو لینے دو پھر دیکھنا وہ تمہیں کیسے تگنی کا ناچ نچاتے ھیں۔

عمران خان نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور مشرف کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اس وقت جب کہ نواز شریف اور اسکے حواری جدہ میں عیاشی کر رہے تھے عمران خان مشرف کے خلاف اور عدلیہ کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں جیل کاٹ رہا تھا ۔

پھر مشرف کا وقت ختم ہوا اور نواز شریف اور بے نظیر کو مشرف نے این آر او کے ذریعے ڈیل کر کے پاکستان آنے ک راستہ دے دیا ۔بے نظیر کے بم دھماکے میں قتل کے بعد آصف زرداری پیپلز پارٹی اور اسکے بعد پاکستان کا صدر بنا اور مشرف کے بھاگنے کے لئے صاف راستہ دے دیا گیا ۔

آصف زرداری کے کرپشن سے آلودہ پانچ سالوں میں عمران خان نے نوجوانوں پر بہت محنت کی انکو بتایا کہ کس طرح یہ لٹیرے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں ْایک باری زرداری
اور اگلی باری نواز شریف جی بھر کے لوٹو اور پھر آرام سے کھسک لو ۔

عمران خان نے دن رات ایک کر کے نوجوانوں میں سیاسی شعور کو کوٹ کوٹ کے بھر دیا ۔اور پھر تیس اکتوبر کا دن آیا تو چشم فلک نے دیکھا کہ کس طرح مینار پاکستان پر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پورا پاکستان امڈ آیا ہے ۔اصلی معنوں میں تحریک انصاف کا جنم اسی دن ہوا تھا ۔

اسکے بعد عمران خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلتا رہا حتکہ الیکشن کے دن قریب آگیے اور کپتان دن کے پانچ پانچ جلسے کر کے لوگوں کو جگاتا رہا اور لوگ کپتان کی بات پر لبیک کہنے کو پر تول رہے تھے۔

کہ یکایک بدقسمتی کی آندھی ایسی چلی کہ سبھی کیئے کرائے پر پانی پھر گیا اور کپتان الیکشن کمپین کے دوران لفٹر سے گر کر شدید زخمی ہو گیا۔چند منٹوں کے لئے تو پورے پاکستان کی جیسے سانسیں رک گئی ہوں ۔سبھی دوست دشمن سیاسی مخالفین بھی الله کے حضور بدست دعا گوُ ہو گئے کہ الله اس بندے کے زندگی عطا فرما دے ۔اور پھر الله نے سن لی ۔

مگر کپتان آٹھ نہ سکا اور بستر پر ہی بیٹھ کر الیکشن کمپین کا آخری جذبات سے بھرا خطاب کیا ۔عوام نے کپتان کی باتوں کو سمجھا اور اسکی آواز پر لبیک کہا ۔

مگر کیا کہیں نواز شریف جیسے مکار اور بددیانت انسان کو کہ جس نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور قائم مقام وزیر اعلی نجم سیٹھی جسے انہوں نے خود منتخب کیا تھا ان سبھی شیطانوں نے مل کر دھونس اور دھاندھلی کا ایسا کھیل رچایا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی ۔مگر اسکے باوجود تحریک انصاف کو پنتیس سیٹیں مل گئیں اور دوسرے نمبر پر ووٹ ۔

اتنی بڑی تعداد میں دھاندلی اور اس پر بھی کروڑ کم کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنا اپنے آپ میں ایک کمال تھا ۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ۔جب عمران خان روبہ صحت ہو کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو پورا اسمبلی ھال آٹھ کر انکا استقبال کرتا ہے ۔

عمران خان نے پہلی تقریر میں کہا کہ ہم نے الیکشن کو تسلیم کیا ہے مگر دھاندلی کو تسلیم نہیں کیا آپ زیادہ نہیں صرف ہمارے بتائے گئے چار حلقے کھول دو اور انکا آڈٹ کروا دو ہم آپکو وزیر اعظم تسلیم کر لیں گے ۔اور ساتھ میں عمران خان نے نواز شریف کو یقین دلایا کہ دہشت گردی یا دوسرے ملکی مسائل کے حل کے لئے ہم آپکے ساتھ کھڑے ہیں ۔

عمران خان پورا ڈیڑھ سال ہر عدالت ہر کمیشن کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک گیا مگر کہیں انصاف نہیں ملا ۔

آخر کار تھک ہار کر اس نے عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا تو عوام نے بھی سڑکوں پر نکل کر کپتان کو خوش آمدید کہا ۔لاہور سے قافلہ چلا تو اسلام آباد پہنچنے میں دو دن لگ گئے ۔اسلام آباد پہنچ کر کپتان کو وہاں ڈیرے لگانے پڑے ۔

اس جدوجہد میں بہت سے واقعات ہوئے کارکن بھی شہید ہوئے طوفانی بارشوں میں برستے ہوئے آنسو گیس اور سیدھی سیدھی چلتی ہوئی گولیاں بھی کپتان اور اسکے سپاہیوں کے عزم اور حوصلے کو شکست نہ دے سکیں ۔جب دیکھا کہ حاکم وقت ایک فرعون صفت انسان ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو کپتان نے ایک فیصلہ کیا ۔کپتان نے پورے پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کو پھیلانے کا فیصلہ کر لیا ۔

اور چشم فلک نے دیکھا کہ عمران خان جس شہر میں بھی گیا وہاں کے لوگوں نے دیدہ دل فرش راہ اپنے عظیم کپتان کا استقبال کیا ۔لاہور میں ایسا اجتماع ہوا کہ تاریخ میں اتنے لوگ اکٹھے نہیں ہوئے ہونگے ۔کپتان نے جب اہل کراچی کو آواز دی تو پورا کراچی مزار قائد پر امڈ آیا ۔

فیصل آباد گجرات ہو یا جہلم ہو یا لاڑکانہ ۔کپتان جہاں بھی گیا تاریخ بناتا گیا ۔

کپتان دن کو جلسوں سے خطاب کرتا اور شام کو اسلام آباد میں اپنے کنٹینر پر پہنچ کر عوام پاکستان کو اپنے حقوق لینے کے گر بتاتا رہا ۔کپتان کے سبق کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاکم وقت اور اسکے حواری جہاں جاتے گو نواز گو اور گو نظام گو کا نعرہ انکے پیچھے عفریت کی طرح پنجے جھاڑ کر پڑا ہوا نظر آنے لگا ۔

پاکستان کی عوام پوری طرح جاگ گئی تھی ایسی جاگ گئی تھی کہ نواز شریف کے گھر سے اسکی نواسی نے بھی گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اسکے وزراء جہاں جاتے انھیں اسی قسم کے نعرے سننے کے ملتے ۔لیکن سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن جب اس ملک کے ایک سو چالیس بچے پاکستان کا مستقبل وہ معصوم بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

آرمی پبلک سکول پشاور میں ہونے والے اس اندوہناک حادثے نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا ۔کپتان عظیم عمران خان نے دن کو اسپتال کا دورہ کیا اور شام کو اسلام آباد پہنچ کر آخری خطاب کیا اور اپنے کارکنوں کو بتایا کہ ہم دھرنا ختم کر رہے ہیں کیوں کہ ملک اس وقت سوگ کے عالم میں ہے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہی بہتر ہے کہ فلحال دھرنے کو ختم کیا جاۓ ۔

اسکے بعد کپتان نے اخلاقی جرات اور زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ ہر میٹنگ میں شرکت کی جس میں دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور انکے خلاف مضبوط حکمت عملی بنانے کا اعیادہ کیا گیا ۔اسی دوران نواز شریف نے وعدہ کیا کہ ہم جوڈیشل کمیشن بنائیں گے اور آپکے ساتھ مذاکرات کو بھی جاری رکھیں گے ۔

مگر نواز شریف کا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جاۓ نواز شریف نے اپنے پرانے اوچھے ہتھکنڈے استمعال کرنے شروع کر دیئے ۔

تادم تحریر عمران خان کے حلقہ
na 122
میں تحقیقات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں جعلی ووٹ برآمد ہوئے ہیں۔اور جعلی مینڈٹ چوری شدہ مینڈٹ والی نااہل حکومت ایک بار پھر جوڈیشل کمیشن سے بھاگ رہی ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف اور اسکے حواری کونسا نیا ڈرامہ اختیار کرتے ہیں ۔کیوں کہ عوام کے سامنے اب حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ہے ۔یہ تھی کپتان کی جدوجہد کی ایک مختصر سی کہانی جو کہ اختصار کے ساتھ آپکے گوش گزار دی گئی ہے ۔

اور یہ سب سے بڑی حقیقت ہے کہ عمران خان نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہے اسکی واضح مثال اس سے ملتی ہے کہ لوگ عمران خان کی شادی میں اسے تحفہ دینے کے بجائے لاکھوں روپے شوکت خانم اسپتال کو چندے کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔عمران خان سیاست میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں عمران خان کا نام ایک عظیم ترین لیڈر کے طور پر یاد رکھا جاۓ گا۔

 
Last edited:

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
Re: فدائے ملت ، سیالکوٹین پاکستان کے قلم سے۔

A well written synopsis on IK's biography. Thanks for sharing.