فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں، لاہور ہائیکورٹ

1742636540792.png


لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے جوڑنا کافی نہیں۔


یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس میں سنایا گیا۔ عدالت نے چھ سال بعد عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے ملزم محمد عارف کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔


فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں کیسوں کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، لیکن عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ڈی این اے کے نمونے محفوظ طریقے سے فرانزک تجزیے کے لیے بھیجے گئے تھے۔


جسٹس طارق ندیم نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے، تاہم شواہد کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ پراسیکیوشن کا کیس شکوک و شبہات سے بھرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مشکوک اور غیر حقیقی شواہد کی بنیاد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ملزم پر انتہائی سنجیدہ الزامات عائد ہیں، مگر صرف اس بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی۔


عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں سنگین قانونی نقائص ہیں۔ ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد اس کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ تاہم، کوئی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔


فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تکنیکی شواہد پر مبنی تھا، جو عموماً کمزور شواہد سمجھے جاتے ہیں۔ پراسیکیوشن نے اس معاملے میں وقوعہ کے وقت آخری دیکھے جانے والے گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا تھا، جنہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے لڑکی کو ملزم کے ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ تاہم، جسٹس طارق ندیم نے ان گواہوں کو قانونی لحاظ سے کمزور گواہ قرار دیا۔


میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اور عدالت نے اس کی بنیاد پر ملزم کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
God forbid, iss judge kee apni larki kay saath ziadtee kaa aiesa case ho tou phir iss say sawal poocha jaaye keh DNA admissible saboot banta hai keh nahi.
Inkay nazdeek doosroun kee batioun kee koi izzat nahi.
 

exitonce

Prime Minister (20k+ posts)
God forbid, iss judge kee apni larki kay saath ziadtee kaa aiesa case ho tou phir iss say sawal poocha jaaye keh DNA admissible saboot banta hai keh nahi.
Inkay nazdeek doosroun kee batioun kee koi izzat nahi.
True, there is no such education or training done on these judges and company compromises them easily.
 

umer amin

Minister (2k+ posts)
ab agar main is judge ki bond maron....koi gwah na ho...to kya mera DNA is ki gand say milay ga to sahi ho ga keh nahi?
toheen e adalat to nahi ho gaye?
 

Back
Top