فوجی تحویل میں لیا گیا تو بنیادی حقوق معطل تھے، نہ ایمرجنسی نافذ، جسٹس مسرت

1736405430094.png

اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جاری ہے۔ دوران سماعت، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی 2023 کے پرتشدد احتجاج کے کیس میں جب ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا، اس وقت بنیادی حقوق معطل نہیں تھے اور نہ ہی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔


سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل، خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 233، جو ایمرجنسی نافذ کرنے سے متعلق ہے، کو غیر مؤثر قرار دیا گیا، حالانکہ اس کا فوجی عدالتوں کے کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح کے لیے چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے تحت صدر ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا ہے۔


جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات پر ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کے دور میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی اور ایمرجنسی کے دوران بنیادی حقوق پر عدالتوں کے فیصلے نہیں ہو سکتے۔ اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں کہ عدالتیں اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہیں۔


جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنیادی حقوق کا دفاع عدالتوں میں کیا جا سکتا ہے، تاہم صرف عملدرآمد معطل ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے پھر کہا کہ اس کیس میں جب ملزمان کو فوجی تحویل میں لیا گیا، تو نہ ہی بنیادی حقوق معطل ہوئے اور نہ ہی ایمرجنسی نافذ کی گئی۔


خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ عملدرآمد کو روکنا بنیادی حقوق کو معطل کرنے کے مترادف ہے۔


دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2-D کو کالعدم قرار دیا ہے، اور سوال یہ ہے کہ اس سے کلبھوشن یادیو جیسے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں چل سکتا ہے یا نہیں۔ خواجہ حارث نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک دشمن جاسوس کا کیس بھی ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمیں اپنے پراسیکیوشن کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔


جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ایچ کیو پر پہلے بھی حملے ہوئے، جن میں شہادتیں ہوئیں، اور کراچی میں ایک دہشت گردی کی کارروائی میں کورین طیارہ تباہ ہوا، جس میں بھی شہادتیں ہوئیں۔ یہ تمام واقعات فوجی تنصیبات پر حملے تھے۔


جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ صرف الزامات تھے، تو جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ واقعات فوجی تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ہوئے، اور یہ کیس کہاں چلائے گئے، اس کا ڈیٹا فراہم کریں۔


جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس کیس کا معاملہ ملٹری کورٹس کے وجود کا نہیں، بلکہ ان کے اختیار سماعت کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون سے کیسز ملٹری کورٹس میں چلیں گے اور کون سے نہیں، اور یہ تفریق کیسے کی جائے گی۔


جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ سوالات کی بھری ہوئی باسکٹ لے کر جا رہے ہیں، اور ایک باسکٹ میں میرا سوال بھی شامل کر لیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ 9 مئی کے واقعات میں 103 ملزمان کے کیس ملٹری کورٹس میں چلائے گئے، جب کہ باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یہ تفریق کس بنیاد پر کی گئی اور فوجی تحویل میں دینے کا تفصیلی فیصلہ کہاں ہے؟


جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کسی جرم کے حوالے سے طے کرنے کا عمل کون کرے گا کہ کیس کہاں جائے گا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمات کہاں چلیں گے، اس کی تفریق کیسے کی جاتی ہے اور کن اصولوں پر۔
 

Back
Top