Bani Adam
Senator (1k+ posts)
المختصر، دو سنگین تصوراتی/نظریاتی غلط فہمیوں کی نشاندہی ضروری ہے، جو آئی ایس پی آر کے افسران بار بار دہرا رہے ہیں۔
لگ بھگ پانچ برس قبل بھی، شائد چند لوگوں کو یاد ہو، آرکائیوز دیکھ سکتے ہیں، تقریباً ہر دوسری گفتگو میں صاحب فرمایا کرتے تھے: "پاکستانی فوج نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے... حکومت پاکستان کو سفارش کی ہے... حکومت پاکستان سے پوچھا ہے... کہا ہے... وغیرہ وغیرہ"، جیسے پاکستانی فوج حکومت پاکستان سے بالا اور/یا کوئی الگ عنصر ہے؟ ٹویٹر پر کچھ نے اعتراض کیا تو انہوں نے بیان بدل لیا
آج بھی اور اس سے قبل بھی جب صاحب یہ بات دہراتے ہیں کہ وہ "پاکستان آرمی ایکٹ کی پیروی کر رہے ہیں"، کوئی بھی غیر جانبدار مبصر یہی بتائے گا کہ پاکستان آرمی، اور اسی طرح ایئر فورس اور نیوی ایکٹس، ماورائے آئین قوانین ہیں اور انکو آئین (اور پارلیمنٹ) کے دائرہ میں لانے کیلیے ترامیم کی ضرورت ہے۔
اسی طرح صاحب بار بار "خود احتسابی" کا نعرہ لگا کر اپنی پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہیں. کوئی انکو سمجھائے کہ آئینی طرز حکمرانی میں "احتساب" اور "خود احتسابی" سے کیا مراد ہے۔ نجی بحثوں میں آپ ان اصطلاحات کو توڑ مروڑ لیں لیکن جب ریاستی گورننس کی فکری بات ہو تو ’’خود احتسابی‘‘ ایک انفرادی وصف اور توقع ہے (شہریوں سے)! مختلف ریاستی محکموں، وزارتوں، وزراء یا محکموں کے سربراہان اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے ریاست کے آئین/قوانین اور عوامی نمائندوں کے بلواسطہ عام لوگوں کے سامنے "جوابدہ" ہوتے ہیں۔ "محکمانہ خود احتسابی" بہت محدود ہوتی ہے، کیونکہ اگر ریاست کے تمام محکمے یہ موقف اختیار کر لیں کہ وہ صرف اپنے آپکو داخلی طور پر جوابدہ ہیں اور عوامی/پارلیمانی جانچ پڑتال یا نگرانی کے لیے تیار نہیں تو اسکا بنیادی مطلب/اشارہ ازخود ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کرنا ہے۔
مزید براں، آجکی پریس کانفرنس میں صاحب نے ایک فقرہ بولا ہے جسکو ڈان اخبار نے قوٹ کیا ہے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے. یوں لگتا ہے کہ شور و غل میں یہ اہم بات دفن ہو گئی ہے. حضرت فرماتے ہیں: "جنرل فیض حمید کا کیس وزارت دفاع کے ذریعے پاک فوج کو "فوج کے احتساب کے عمل پر مکمل یقین" کی روشنی میں بھیجا گیا تھا، جس کے بعد فوج نے معاملے کی "اعلیٰ سطحی عدالت کی انکوائری" کا حکم دیا تھا۔" (روزنامہ ڈان). یعنی کیا مطلب نکلا؟ خواجہ آصف ایسے ہی نہیں کئی ہفتوں سے روز بلاناغہ بول رہا، ان تمام سازشوں اور عدم استحکام کا کھرا جاتی امرا جاتا ہے اور اصل سرغنہ نواز جندال اور مریم جاسم ہیں
لگ بھگ پانچ برس قبل بھی، شائد چند لوگوں کو یاد ہو، آرکائیوز دیکھ سکتے ہیں، تقریباً ہر دوسری گفتگو میں صاحب فرمایا کرتے تھے: "پاکستانی فوج نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے... حکومت پاکستان کو سفارش کی ہے... حکومت پاکستان سے پوچھا ہے... کہا ہے... وغیرہ وغیرہ"، جیسے پاکستانی فوج حکومت پاکستان سے بالا اور/یا کوئی الگ عنصر ہے؟ ٹویٹر پر کچھ نے اعتراض کیا تو انہوں نے بیان بدل لیا
آج بھی اور اس سے قبل بھی جب صاحب یہ بات دہراتے ہیں کہ وہ "پاکستان آرمی ایکٹ کی پیروی کر رہے ہیں"، کوئی بھی غیر جانبدار مبصر یہی بتائے گا کہ پاکستان آرمی، اور اسی طرح ایئر فورس اور نیوی ایکٹس، ماورائے آئین قوانین ہیں اور انکو آئین (اور پارلیمنٹ) کے دائرہ میں لانے کیلیے ترامیم کی ضرورت ہے۔
اسی طرح صاحب بار بار "خود احتسابی" کا نعرہ لگا کر اپنی پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہیں. کوئی انکو سمجھائے کہ آئینی طرز حکمرانی میں "احتساب" اور "خود احتسابی" سے کیا مراد ہے۔ نجی بحثوں میں آپ ان اصطلاحات کو توڑ مروڑ لیں لیکن جب ریاستی گورننس کی فکری بات ہو تو ’’خود احتسابی‘‘ ایک انفرادی وصف اور توقع ہے (شہریوں سے)! مختلف ریاستی محکموں، وزارتوں، وزراء یا محکموں کے سربراہان اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے ریاست کے آئین/قوانین اور عوامی نمائندوں کے بلواسطہ عام لوگوں کے سامنے "جوابدہ" ہوتے ہیں۔ "محکمانہ خود احتسابی" بہت محدود ہوتی ہے، کیونکہ اگر ریاست کے تمام محکمے یہ موقف اختیار کر لیں کہ وہ صرف اپنے آپکو داخلی طور پر جوابدہ ہیں اور عوامی/پارلیمانی جانچ پڑتال یا نگرانی کے لیے تیار نہیں تو اسکا بنیادی مطلب/اشارہ ازخود ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کرنا ہے۔
مزید براں، آجکی پریس کانفرنس میں صاحب نے ایک فقرہ بولا ہے جسکو ڈان اخبار نے قوٹ کیا ہے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے. یوں لگتا ہے کہ شور و غل میں یہ اہم بات دفن ہو گئی ہے. حضرت فرماتے ہیں: "جنرل فیض حمید کا کیس وزارت دفاع کے ذریعے پاک فوج کو "فوج کے احتساب کے عمل پر مکمل یقین" کی روشنی میں بھیجا گیا تھا، جس کے بعد فوج نے معاملے کی "اعلیٰ سطحی عدالت کی انکوائری" کا حکم دیا تھا۔" (روزنامہ ڈان). یعنی کیا مطلب نکلا؟ خواجہ آصف ایسے ہی نہیں کئی ہفتوں سے روز بلاناغہ بول رہا، ان تمام سازشوں اور عدم استحکام کا کھرا جاتی امرا جاتا ہے اور اصل سرغنہ نواز جندال اور مریم جاسم ہیں
"He said Gen Hameed’s case was referred to the Pakistan Army through the defence ministry in light of a “full belief in the army’s accountability process”, following which the army ordered a “high-level court of inquiry” into the matter." Source