فوج کے گلے کی دو ہڈیاں

Enlightened10

Minister (2k+ posts)
فوج کے گلے کی دو ہڈیاں

‏ جب رجیم چینج آپریشن چل رہا تھا تو عمران خان نے ایک ایسی سیاسی چال چلی جس نے ابھی تک فوج کو پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ سائفر وہاں رکھا۔ اس اجلاس کا اعلامیہ جاری ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی یعنی وزیراعظم تمام سروسز چیفس اور کابینہ کے اہم اراکین نے اس سائفر کو پاکستان کے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

‏ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کی بنیاد پر امریکہ سے ڈیمارش بھی کیا گیا۔ یہ عمران خان کی وہ سیاسی چال تھی جس میں فوج آگئی۔ اس کے بعد لاکھ صفائیاں دیں وضاحتیں دیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ وہ لوگ جو خود رجیم چینج کروارہے تھے وہ خود اس نرغے میں پھنس کر سائفر کو نہ صرف حقیقت تسلیم کر بیٹھے بلکہ اسے ملکی معاملات میں مداخلت بھی قرار دیا۔

‏ اس وقت قمر جاوید باجوہ کا خیال تھا کہ یہ سب بے معنی ہے۔ جب ہم عمران خان کو گرائیں گے میڈیا لفافے ہمارے ساتھ ہوں گے۔ عدالتیں ہماری جیب میں ہیں ۔ مقبولیت ہماری نوے فیصد ہے۔ عمران خان کے کردار پر حملے کرکے اسے غیر مقبول کردیں گے۔ پارٹی توڑ دیں گے۔ عمران خان پر سختیاں آئیں گی تو عمران خان ملک چھوڑ کر چلا جائے گا اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔
‏لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان نے انکے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔

‏ فوج کے گلے کی دوسری ہڈی اب نو مئی بن چکا ہے۔ فالس فلیگ آپریشن کروالیا۔ عمران خان کی پارٹی پر تمام تر ظلم و تشدد کرلیا۔ لیکن ایک بڑی غلطی کر بیٹھے۔ کور کمانڈر کانفرنس اور فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں لکھ دیا کہ ہمارے پاس نو مئی کے ناقابل تردید ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ عمران خان نے ایک سازش تیار کی۔ اپنی پارٹی قیادت کو تیار کیا اور فوجی تنصیبات پر حملے کروائے۔ اب جس دن عمران خان حکومت میں آئے گا۔ سب سے پہلا سوال عاصم منیر اور تمام کور کمانڈرز سے ہوگا کہ ناقابل تردید ٹھوس شواہد نکالو شاباش۔ ان ناقابل تردید ٹھوس شواہد کی حقیقت یہ ہے کہ نو ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ایک بھی ثبوت کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ کسی ایک بھی شخص نے اعتراف نہیں کیا کہ عمران خان نے کوئی سازش یا پلاننگ کی تھی۔ عوام تو کب کا نومئی پر ترپال ڈال بیٹھے ہیں۔ فوج کے اندر ہمدردیاں زندہ رکھنے کےلیے بار بار نو مئی کو لانچ کردیا جاتا ہے۔ لیکن اب فوج کے اندر سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ کہاں ہیں وہ ناقابل تردید ٹھوس شواہد لیکن فوج سے کوئی جواب نہیں بن پارہا۔

‏آہستہ آہستہ یہ سوال ہاتھ بن کر تمام جرنیلوں کے گریبان تک پہنچیں گے کہ نکالو ٹھوس شواہد۔ جیسے اب فوج چاہتی ہے کہ کسی طرح تاریخ سے سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مٹ جائے ویسے یہ نو مئی کو کھرچ کھرچ کر مٹانا چاہیں گے لیکن یہ ان کی تشریف کا پھوڑا بنے گا۔ نہ بیٹھنے دے گا نہ لیٹنے
دے گا۔
---‐‐--
آزاد بھی ایک مولوی تھا۔۔
مونچھوں کو تاؤ دیتے، ہاتھوں میں سگریٹ کا کش لگائے یہ مولوی،وقت کا امام ابوالکلام آزاد ہے
آج کے دستار بند و دماغ بند مولوی اسے کبھی اپنا آئیڈیل قبول نہیں کریں گے
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے حیثیت سے منصب سنبھالا اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس میدان تک پہنچایا کہ آج دنیاء کے بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتے ہیں کینڈا سے لیکر امریکی ایوانوں تک انڈین نیشنیلٹی کے لوگ پہنچ چکے ہیں
یہ کون تھا آیئے تاریخ سے پوچھتے

آغاء شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ جونہی مولانا کی رحلت کا اعلان ہوا سینکڑوں لوگوں کا سنّاٹا چیخ و پکار سے تھرّا گیا ۔ دن چڑھے لگ بھگ دو لاکھ انسان ، آزاد کے کوٹھی سے باہر جمع ہو گئے تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیئے گئے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ماتمی ہڑتال ہو گئ ،دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے سب کے آنکھوں میں آنسوں تھے
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضاکار کی طرح عوامی ہجوم میں گھس جاتے پنڈت جی نے اپنے دائیں بائیں سیکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا ۔
"آپ کون ہیں ؟"
کیوں کھڑے ہیں میرےآگے پیچھے؟
"آپ کی حفاظت کیلئے"
"کیسی حفاظت ؟ موت تو اپنے وقت پر آ کے رہتی ہے بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟"
۔
جنازہ اٹھا ، پنڈت نہرو ، مسٹر دھیبر ، صدر کانگرس ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز ، پروفیسر ہمایوں کبیر ، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔ ان کے پیچھے صدر جمہوریہ ہند ، نائب صدر اور مرکزی و صوبائی وزراء کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ،
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اَٹ گیا جب میت کو پلنگ پر ڈال دیا گیا سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ،پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے ، کئ ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت دیکھتے ہی ڈھائیں مار مار کر رونے لگیں ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا "مولانا آپ بھی چلے گئے ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟ ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔
مولانا احمد سعید دھلوی نے دو بج کر پچاس منٹ پر نماز جنازہ پڑھائ ۔
المختصر مولانا کو دفنانے کے بعد ہم ان کی کوٹھی میں گئے تو کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال آ گئے ۔ اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ۔ ایک گچھے سے سوال کیا ۔
"کیا مولانا کی موت کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟ 😢
کاش
پاکستان میں کوئی ایک مولوی اس شخصیت کے رول ماڈل کو اپناتا۔۔مگر نا ممکن !!
#ابوالکلام

---------------
*اگر 72 سال کی عمر میں لیڈر جیل میں بیمار نہیں ہوا،،
تو سمجھو کے لیڈر ایماندار ہے،اور حلال کھاتا ہے
ماشاءاللہ کہو کہیں نظر نہ لگے،،
✊🔴🟢💪
____________
Vote :
ووٹ اڈیالہ جیل والے کا
ووٹ ناموس رسالت کے رکھوالے کا
ووٹ اسلاموفوبیا کا مقدمہ لڑنے والے کا
ووٹ ایبسولیو ٹلی ناٹ کہنے والے کا
ووٹ صحت کارڈ دینے والے کا
ووٹ میگا ڈیمز بنانے والے
ووٹ یکساں نظام تعلیم لانے والے کا
ووٹ رحمتہ اللعالمین اتھارٹی بنانے والے کا
ووٹ 6 فی صد GDP گروتھ والے کا
ووٹ بلین ٹری پروجیکٹ چلانے والے کا
ووٹ کرونا وائرس سے بچانے والے کا
ووٹ احساس پروگرام چلانے والے کا
ووٹ کامیاب نوجوان پروگرام بنانے والے کا
ووٹ پچاس لاکھ نوکریاں دینے والے کا
ووٹ خود مختار خارجہ پالیسی لانے والے کا
ووٹ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دینے والے کا
ووٹ سیٹیزن پورٹل مہیا کرنے والے کا
ووٹ سیکیورٹیز پالیسیز دینے والے کاووٹ قوم کے لئے گولیاں کھانے والے کا
<<<<<<<<<<<<<<<<

*کبھی کبھی میں سوچتا ہو پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ کونسا ہے*

*جب قائداعظم کی گاڑی خراب کردی گئی تھی یا جب لیاقت علی خان کو سرعام گولیاں ماری گئی اور انکوائری تک نہ کروائی جاسکی جب فاطمہ جناح پر تشدد کیا گیا اور پوسٹ مارٹم تک نہ کیا گیا یا پھر مجیب الرحمٰن اور بنگالیوں کو غدار کہہ کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا یا بھٹو کو پھانسی دی گئی یا پولیس کے ہاتھوں لاہور ماڈل ٹاؤن عورتوں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں وہ بڑا سانحہ ہے جب اپنے ہی وطن کے بچوں کو بےدردی سے شہید کروایا گیا یا پھر پاکستانی 80 ہزار فوجیوں کو چند ڈالروں کی خاطر پرائی جنگ میں شہید کروانا سب سے بڑا سانحہ تھا یا پھر اپنی فرعونیت کو برقرار رکھنے کیلئے 24 کروڑ عوام کو انصاف سے محروم رکھا جارہا ہے یہ سب سے بڑا سانحہ ہے*
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
Please also credit the original author for this thread

فوج کے گلے کی دو ہڈیاں

‏ جب رجیم چینج آپریشن چل رہا تھا تو عمران خان نے ایک ایسی سیاسی چال چلی جس نے ابھی تک فوج کو پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ سائفر وہاں رکھا۔ اس اجلاس کا اعلامیہ جاری ہوا۔ قومی سلامتی کمیٹی یعنی وزیراعظم تمام سروسز چیفس اور کابینہ کے اہم اراکین نے اس سائفر کو پاکستان کے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

‏ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کی بنیاد پر امریکہ سے ڈیمارش بھی کیا گیا۔ یہ عمران خان کی وہ سیاسی چال تھی جس میں فوج آگئی۔ اس کے بعد لاکھ صفائیاں دیں وضاحتیں دیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ وہ لوگ جو خود رجیم چینج کروارہے تھے وہ خود اس نرغے میں پھنس کر سائفر کو نہ صرف حقیقت تسلیم کر بیٹھے بلکہ اسے ملکی معاملات میں مداخلت بھی قرار دیا۔

‏ اس وقت قمر جاوید باجوہ کا خیال تھا کہ یہ سب بے معنی ہے۔ جب ہم عمران خان کو گرائیں گے میڈیا لفافے ہمارے ساتھ ہوں گے۔ عدالتیں ہماری جیب میں ہیں ۔ مقبولیت ہماری نوے فیصد ہے۔ عمران خان کے کردار پر حملے کرکے اسے غیر مقبول کردیں گے۔ پارٹی توڑ دیں گے۔ عمران خان پر سختیاں آئیں گی تو عمران خان ملک چھوڑ کر چلا جائے گا اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔
‏لیکن وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان نے انکے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔

‏ فوج کے گلے کی دوسری ہڈی اب نو مئی بن چکا ہے۔ فالس فلیگ آپریشن کروالیا۔ عمران خان کی پارٹی پر تمام تر ظلم و تشدد کرلیا۔ لیکن ایک بڑی غلطی کر بیٹھے۔ کور کمانڈر کانفرنس اور فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں لکھ دیا کہ ہمارے پاس نو مئی کے ناقابل تردید ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ عمران خان نے ایک سازش تیار کی۔ اپنی پارٹی قیادت کو تیار کیا اور فوجی تنصیبات پر حملے کروائے۔ اب جس دن عمران خان حکومت میں آئے گا۔ سب سے پہلا سوال عاصم منیر اور تمام کور کمانڈرز سے ہوگا کہ ناقابل تردید ٹھوس شواہد نکالو شاباش۔ ان ناقابل تردید ٹھوس شواہد کی حقیقت یہ ہے کہ نو ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ایک بھی ثبوت کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ کسی ایک بھی شخص نے اعتراف نہیں کیا کہ عمران خان نے کوئی سازش یا پلاننگ کی تھی۔ عوام تو کب کا نومئی پر ترپال ڈال بیٹھے ہیں۔ فوج کے اندر ہمدردیاں زندہ رکھنے کےلیے بار بار نو مئی کو لانچ کردیا جاتا ہے۔ لیکن اب فوج کے اندر سے سوال اٹھ رہے ہیں کہ کہاں ہیں وہ ناقابل تردید ٹھوس شواہد لیکن فوج سے کوئی جواب نہیں بن پارہا۔

‏آہستہ آہستہ یہ سوال ہاتھ بن کر تمام جرنیلوں کے گریبان تک پہنچیں گے کہ نکالو ٹھوس شواہد۔ جیسے اب فوج چاہتی ہے کہ کسی طرح تاریخ سے سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ مٹ جائے ویسے یہ نو مئی کو کھرچ کھرچ کر مٹانا چاہیں گے لیکن یہ ان کی تشریف کا پھوڑا بنے گا۔ نہ بیٹھنے دے گا نہ لیٹنے
دے گا۔
---‐‐--
آزاد بھی ایک مولوی تھا۔۔
مونچھوں کو تاؤ دیتے، ہاتھوں میں سگریٹ کا کش لگائے یہ مولوی،وقت کا امام ابوالکلام آزاد ہے
آج کے دستار بند و دماغ بند مولوی اسے کبھی اپنا آئیڈیل قبول نہیں کریں گے
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے حیثیت سے منصب سنبھالا اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس میدان تک پہنچایا کہ آج دنیاء کے بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتے ہیں کینڈا سے لیکر امریکی ایوانوں تک انڈین نیشنیلٹی کے لوگ پہنچ چکے ہیں
یہ کون تھا آیئے تاریخ سے پوچھتے

آغاء شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ جونہی مولانا کی رحلت کا اعلان ہوا سینکڑوں لوگوں کا سنّاٹا چیخ و پکار سے تھرّا گیا ۔ دن چڑھے لگ بھگ دو لاکھ انسان ، آزاد کے کوٹھی سے باہر جمع ہو گئے تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیئے گئے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ماتمی ہڑتال ہو گئ ،دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے سب کے آنکھوں میں آنسوں تھے
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضاکار کی طرح عوامی ہجوم میں گھس جاتے پنڈت جی نے اپنے دائیں بائیں سیکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا ۔
"آپ کون ہیں ؟"
کیوں کھڑے ہیں میرےآگے پیچھے؟
"آپ کی حفاظت کیلئے"
"کیسی حفاظت ؟ موت تو اپنے وقت پر آ کے رہتی ہے بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے؟"
۔
جنازہ اٹھا ، پنڈت نہرو ، مسٹر دھیبر ، صدر کانگرس ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز ، پروفیسر ہمایوں کبیر ، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔ ان کے پیچھے صدر جمہوریہ ہند ، نائب صدر اور مرکزی و صوبائی وزراء کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ،
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اَٹ گیا جب میت کو پلنگ پر ڈال دیا گیا سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ،پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے ، کئ ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت دیکھتے ہی ڈھائیں مار مار کر رونے لگیں ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا "مولانا آپ بھی چلے گئے ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟ ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔
مولانا احمد سعید دھلوی نے دو بج کر پچاس منٹ پر نماز جنازہ پڑھائ ۔
المختصر مولانا کو دفنانے کے بعد ہم ان کی کوٹھی میں گئے تو کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال آ گئے ۔ اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ۔ ایک گچھے سے سوال کیا ۔
"کیا مولانا کی موت کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟ 😢
کاش
پاکستان میں کوئی ایک مولوی اس شخصیت کے رول ماڈل کو اپناتا۔۔مگر نا ممکن !!
#ابوالکلام

---------------
*اگر 72 سال کی عمر میں لیڈر جیل میں بیمار نہیں ہوا،،
تو سمجھو کے لیڈر ایماندار ہے،اور حلال کھاتا ہے
ماشاءاللہ کہو کہیں نظر نہ لگے،،
✊🔴🟢💪
____________
Vote :
ووٹ اڈیالہ جیل والے کا
ووٹ ناموس رسالت کے رکھوالے کا
ووٹ اسلاموفوبیا کا مقدمہ لڑنے والے کا
ووٹ ایبسولیو ٹلی ناٹ کہنے والے کا
ووٹ صحت کارڈ دینے والے کا
ووٹ میگا ڈیمز بنانے والے
ووٹ یکساں نظام تعلیم لانے والے کا
ووٹ رحمتہ اللعالمین اتھارٹی بنانے والے کا
ووٹ 6 فی صد GDP گروتھ والے کا
ووٹ بلین ٹری پروجیکٹ چلانے والے کا
ووٹ کرونا وائرس سے بچانے والے کا
ووٹ احساس پروگرام چلانے والے کا
ووٹ کامیاب نوجوان پروگرام بنانے والے کا
ووٹ پچاس لاکھ نوکریاں دینے والے کا
ووٹ خود مختار خارجہ پالیسی لانے والے کا
ووٹ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دینے والے کا
ووٹ سیٹیزن پورٹل مہیا کرنے والے کا
ووٹ سیکیورٹیز پالیسیز دینے والے کاووٹ قوم کے لئے گولیاں کھانے والے کا
<<<<<<<<<<<<<<<<

*کبھی کبھی میں سوچتا ہو پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ کونسا ہے*

*جب قائداعظم کی گاڑی خراب کردی گئی تھی یا جب لیاقت علی خان کو سرعام گولیاں ماری گئی اور انکوائری تک نہ کروائی جاسکی جب فاطمہ جناح پر تشدد کیا گیا اور پوسٹ مارٹم تک نہ کیا گیا یا پھر مجیب الرحمٰن اور بنگالیوں کو غدار کہہ کر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا یا بھٹو کو پھانسی دی گئی یا پولیس کے ہاتھوں لاہور ماڈل ٹاؤن عورتوں کے منہ میں گولیاں ماری گئیں وہ بڑا سانحہ ہے جب اپنے ہی وطن کے بچوں کو بےدردی سے شہید کروایا گیا یا پھر پاکستانی 80 ہزار فوجیوں کو چند ڈالروں کی خاطر پرائی جنگ میں شہید کروانا سب سے بڑا سانحہ تھا یا پھر اپنی فرعونیت کو برقرار رکھنے کیلئے 24 کروڑ عوام کو انصاف سے محروم رکھا جارہا ہے یہ سب سے بڑا سانحہ ہے*