
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کئی ججز نے متنازعہ فیصلے کیے ہیں، جن میں سے ایک فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں۔ ان کے بعض فیصلے اور اقدامات ملک کی سیاسی اور آئینی سمت پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ ایسے فیصلے اور اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر عوامی و سیاسی حلقوں میں تنقید کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان چھیننا
ایک اہم اور متنازعہ اقدام فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کے حوالے سے کیا۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کے سیاسی موقف کو متاثر کیا اور اس کی عوامی حمایت پر بھی اثر ڈالا۔
فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دینا
فائز عیسیٰ نے فوجی عدالتوں کو قانونی حیثیت دی، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی نظر میں ایک متنازعہ فیصلہ تھا۔ مزید برآں، اس فیصلے پر اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا، جس سے عدالتی شفافیت پر سوالات اٹھے۔
بیوروکریٹس کو ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا
پاکستان میں عام انتخابات کے دوران جوڈیشل افسران کی جگہ بیوروکریٹس کو بطور ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنا ایک غیر معمولی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے انتخابات کی شفافیت اور غیرجانبداری پر خدشات پیدا کیے۔
پنجاب میں انتخابی ٹربیونلز کے فیصلے
فائز عیسیٰ کے دور میں پنجاب کے انتخابی ٹربیونلز میں نیک نام اور باصول ججوں کے نوٹیفیکیشن کو سبوتاژ کیا گیا، جس سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا اور اس پر تنقید کی گئی کہ اس فیصلے نے انتخابی عمل کو متنازعہ بنایا۔
آرٹیکل 63 اے کے اثر کو کم کرنا
آئین کے آرٹیکل 63 اے میں تبدیلی کر کے، فائز عیسیٰ نے ہارس ٹریڈنگ کے دوبارہ آغاز کی راہ ہموار کی۔ یہ اقدام سیاست میں غیر آئینی حرکتوں کو دوبارہ جنم دینے کا ذریعہ بنا اور اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کے درمیان تعلقات پر سوالات اٹھائے۔
پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں واپس لینے کی کوشش
فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اس کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جسے سیاسی انتقامی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا۔
پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں بینچ فکسنگ
پی ٹی آئی اور عمران خان کے کیسز میں واضح بینچ فکسنگ کے الزامات سامنے آئے، جس نے عدلیہ کی غیرجانبداری اور شفافیت پر سوالات اٹھائے اور عوامی اعتماد کو متاثر کیا۔
ای سی پی میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی
الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی نشستوں کو دوبارہ گنتی کے ذریعے چھیننے کا ڈرامہ کیا گیا۔ اس فیصلے پر پی ٹی آئی نے انتخابی عمل میں مداخلت کا الزام لگایا۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر خاموشی
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال، لاپتہ افراد کے مسائل اور پولیس کی زیادتیوں پر فائز عیسیٰ نے مبینہ طور پر آنکھیں بند کر لیں، جو کہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نزدیک ایک افسوسناک رویہ تھا۔
عوامی مینڈیٹ کی چوری پر خاموشی اور مبینہ سہولت کاری
1971 کے بعد سے عوامی مینڈیٹ کی سب سے بڑی چوری پر خاموشی اختیار کرنا اور مبینہ طور پر سہولت کاری کرنا بھی فائز عیسیٰ کے اقدامات میں شامل ہیں، جس سے جمہوری عمل پر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی ہراسانی پر خاموشی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایت پر کارروائی نہ کرنا، ایک اور متنازعہ فیصلہ تھا جس نے عدالتی نظام میں احتساب کی کمی کو بے نقاب کیا۔
ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ
فائز عیسیٰ پر ساتھی ججز کے ساتھ ٹکراؤ اور وکلا کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ان کا یہ رویہ نہ صرف عدلیہ کے اندر ہم آہنگی میں خلل ڈالتا رہا بلکہ وکلا برادری کے ساتھ تعلقات میں بھی تنازع کا باعث بنا۔ اس سے عدلیہ کی اندرونی یکجہتی متاثر ہوئی، اور بعض حلقوں نے اسے عدالتی اصولوں اور اخلاقیات کے خلاف قرار دیا۔ اس رویے نے نہ صرف ججز کے درمیان اختلافات کو جنم دیا بلکہ عدلیہ میں تعاون کی فضا بھی متاثر کی، جس کے باعث عدالتی وقار کو نقصان پہنچا۔
چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت
فائز عیسیٰ پر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے متنازع فیصلوں کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایسے فیصلوں کی حمایت کی جن سے مخصوص سیاسی جماعتوں کو نقصان اور دیگر کو فائدہ پہنچا۔ ان فیصلوں میں پی ٹی آئی کی نشستوں کی دوبارہ گنتی اور مخصوص حلقوں میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس رویے کو غیر جانبداری کے اصولوں کے منافی سمجھا جاتا ہے اور اسے الیکشن کمیشن کی ساکھ اور غیر جانبدارانہ حیثیت کو نقصان پہنچانے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ کی راہ ہموار کرنا
فائز عیسیٰ پر 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فلور کراسنگ (floor crossing) کی راہ ہموار کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایسے قانونی فیصلے کیے جس سے ارکان اسمبلی کو پارٹی لائن کے برخلاف ووٹ ڈالنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے فلور کراسنگ کی روک تھام کو کمزور کیا گیا، جس سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بڑھ گئے اور پارلیمنٹ میں سیاسی استحکام متاثر ہوا۔ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 63 اے کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔
یہ اقدامات فائز عیسیٰ کی متنازعہ حکمت عملیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور پاکستانی عوام کے عدالتی نظام پر اعتماد میں کمی کا باعث بنے ہیں۔ اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید جاری ہے۔
https://twitter.com/x/status/1849850780943253596
https://twitter.com/x/status/1849893172702224482
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/11qazifaeaiskjjdjjhjhf.png
Last edited by a moderator: