
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اہم شخصیات پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں، لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام ایک طویل عرصے سے سیاسی اور عسکری حلقوں میں زیربحث رہا ہے۔ آج انہیں کورٹ مارشل کی کارروائی کیلئے باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے، جس میں ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ الزامات ان کی مبینہ سیاسی مداخلت، حکومتی معاہدوں میں کردار اور آئینی ذمہ داریوں کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں۔
فیض آباد دھرنے سے متعلق کردار
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا نام پہلی بار نومبر 2017 میں اس وقت منظرعام پر آیا جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنے کے خاتمے کے لیے حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ان کا نام "بوساطت میجر جنرل فیض حمید" تحریری طور پر شامل کیا گیا۔ معاہدے کے مندرجات کے مطابق انہوں نے دھرنا ختم کروانے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کیا، جس پر شدید سیاسی اور عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ناقدین نے اسے آئینی حدود سے تجاوز اور سیاسی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات
ان پر سب سے سنگین الزام سیاسی معاملات میں مداخلت کا ہے۔ یہ الزامات خاص طور پر اس وقت زیادہ نمایاں ہوئے جب انہیں حساس ترین ادارے کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا۔ ان پر مبینہ طور پر سیاسی جماعتوں کے اندرونی معاملات، اہم سیاسی فیصلوں اور حکومتی معاہدوں میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔سیاسی انتقام اور گرفتاریوں کا معاملہ
فیض حمید پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ ان کے دور میں سیاسی انتقام کی پالیسی اختیار کی گئی۔ مختلف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے متعدد واقعات ان کے نام سے جوڑے گئے۔ یہ الزامات زیادہ تر پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران سامنے آئے جب اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالنے اور احتساب کے عمل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات کی جاتی رہی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی تنقید
سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی کئی تقریروں میں فیض حمید کا نام لے کر ان پر سنگین الزامات عائد کیے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں دعویٰ کیا کہ فیض حمید کی سیاسی مداخلت نے ملک کے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا اور حکومتی معاملات کو غیر آئینی انداز میں متاثر کیا۔ نواز شریف نے انہیں اپنے دور حکومت میں ہونے والی مشکلات کا اہم ذمہ دار قرار دیا۔کابل دورہ اور عالمی تنقید
طالبان کی افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد ستمبر 2021 میں فیض حمید کے کابل دورے نے بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی۔ ان کی ایک تصویر، جس میں وہ ایک کافی کپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی۔ کئی ناقدین نے اس دورے کو پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں عسکری مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔قانون سازی میں مداخلت کے الزامات
ایک اور اہم الزام اسمبلی اجلاسوں اور قانون سازی کے عمل میں مداخلت سے متعلق ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ فیض حمید نے حکومتی اتحادیوں کو اہم اجلاسوں میں شرکت پر مجبور کیا اور قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کے لیے اراکین کی حاضری کو یقینی بنانے میں کردار ادا کیا۔ یہ الزامات ملک کے سیاسی ماحول میں مزید تلخی کا سبب بنے۔شوکت عزیز صدیقی کے الزامات
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر شدید الزامات عائد کیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فیض حمید نے عدالتی معاملات میں مداخلت کی اور بعض مقدمات میں عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ جج شوکت عزیز کے ان بیانات نے ملکی عدالتی اور سیاسی نظام میں ہلچل مچا دی اور ان کے الزامات آج بھی عوامی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث رہتے ہیں۔- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/3faihameddhdhpapfksj.png