behzadji

Minister (2k+ posts)
ضیاالحق نے جنرل چشتی سے کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘


محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

’ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں‘

انیس سو ستتر میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام طے ہوچکا تھا ، آپریشن فیئر پلے۔

آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق اپنے دستِ راست اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی سے ملے۔ آپریشن کی جُزیات ایک بار پھر دہرائی گئیں اور جب فیض علی چشتی مشن پر روانہ ہونے لگے تو مستقبل کے مردِ مومن نے چشتی کے کان میں کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘۔

یہ جنرل ضیاءالحق کا انداز دِلرُبائی تھا۔ وہ اپنے جونیئر کی انا کو ایسے سہلاتے کہ وہ اپنے آپ کو سینیئر محسوس کرنے لگتا اور وہ اپنے سینیئر کے قدموں سے ایسے لپٹتے کہ اسے اپنے اوپر خدا کا روپ اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔

شاید جنرل ضیاء اندر سے ڈرپوک تھے ورنہ ڈرنے کی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جنرل فیض علی چشتی کی مونچھوں اور توپوں کے سامنے کون سی جمہوری حکومت ٹھہرسکتی تھی۔ چشتی نے نہ کسی کو مارا نہ کسی کو مروایا۔ پانچ جولائی کی صبح سحر خیزوں کو یہ مژدہ مِلا کہ ایک اور وردی پوش مسیحا نازل ہوچکا ہے۔

پانچ جولائی کی رات کو تو کوئی نہیں مرا لیکن آئندہ گیارہ برسوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ پھانسی گھاٹوں پر، ٹھوڑی پھاٹک پر ، بوہری بازار میں، اوجھڑی کیمپ میں، طالبِ علم، مزدور، سیاسی کارکن اور کئی جوگھر سے بازار صرف دودھ خریدنے آئے تھےاور سینکڑوں ایسے تھے جو فوج کے عقوبت خانوں میں سالہاسال موت کی دعا مانگتے رہے۔

جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔ افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔
ملک کی جان اس وقت چھوٹی جب مردِ مومن و مردِ حق اپنے ساتھ ایک درجن سے زائد جرنیلوں سمیت ایک فضائی حاثے میں ہلاک ہوئے۔ اناللہِ واِناعلیہِ راجعون۔

جنرل ضیاء کے انتقال کے تیئیس سال بعد پاکستانی قوم میں بڑا تفرقہ ہے۔ ’بےغیرت گروپ‘ ’غیرت بریگیڈ‘ سے نبرد آزما ہے۔ بلوچ بندوقیں اٹھائے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں۔ سندھی کہتے ہیں کہ ایک بار پھر زیادتی کرو توہم تمہیں بتاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلے سینکڑوں لشکر ’نصرمن اللہِ و الفتح قریب‘ کی بشارت دیتے ہیں۔

امریکا کی عمر رسیدہ رکھیلیں طلاق کی بھی دعوے دار ہیں اور اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ کبھی نکاح ہوا تھا۔ نسل در نسل امریکی مفادات کی دلاّلی کرنے والے اس بات پر گھتم گھتا ہیں کہ کمیشن کم کر دیا جائے یا پرانی تنخواہ پر کام کیا جائے۔ اور تو اور آئی ایس آئی چلانے والے اللہ کے پراسرار بندے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے کہتے ہیں کہ ’پتہ نہیں ہم کیا کرتے پھر رہے ہیں‘۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔

لیکن مذ کورہ بالاگروہوں میں ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق کا کوئی لے پالک سیاستدان، فوج کا کوئی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جنرل شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اس کے مزار پر سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا کہ وہ ضیاءالحق کے مشن کی تکمیل کرےگا۔ ضیاء دور کے درس پڑھ کر بڑے ہونے والے ٹی وی اینکرز بھی یہ نہیں کہتے پائےجاتے کہ کاش اگر جنرل ضیاء حیات ہوتےتو ہم یوں راندہءِ درگاہ نہ ہوتے۔


جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔

جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔

افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔

پارلیمنٹ کے بند دروازوں کے پیچھے ہمارے سیاسی اور فوجی سپہ سالاروں میں جو مکالمہ ہوا اس میں ہر ایک کی طبع کے مطابق گیڈر بھبھکیاں بھی ہیں اور سینہ کوبی کا سامان بھی ہے۔ اگر کسی بات کا ذکر نہیں ہے تو یہ نہیں ہے کہ تیس سال پہلے جو ہم نے اپنے ہمسائے میں آگ لگا کر ہاتھ تاپنے کی قومی سلامتی پالیسی بنائی تھی اس پر بھی ایک نظر ڈالیں یا نہیں۔

کیا کبھی کسی فوجی جنرل یا مدبر سیاستدان نے اس بات پرغور کیا ہے کہ ہمارے افغان بھائی کمیونسٹوں سے لے کر طالبان تک ہم سے اتنے متنفر کیوں ہیں؟

فوجی قیادت اور پارلیمان کے درمیان مکالمہ نہ جانے بارہ گھنٹے کیوں جاری رہا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دروازے بند کرتے، گھٹنوں کے بَل گرجاتے اور گِڑگِڑا کرکہتے ’مرشد مروا نہ دینا‘​
 
Last edited:

dukelondon

Senator (1k+ posts)
[MENTION=12797]behzadji[/MENTION]

Excellent eye-opening article bro. I would really like to whole-heartedly thank you for bringing up this discussion so that we can trace back the roots of the mess that we are currently in. I salute you bro. I really salute your patriotism.
 
Last edited:

dukelondon

Senator (1k+ posts)
I think we really need to adopt a policy of "Go to hell Afghanistan!!! We've suffered enough because of you and you have suffered enough because of us" We just need to look after our own motherland and solve our own problems and make our beloved motherland a first world country with justice and peace prevalent.
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
Muhammad Hanif is absolutely right about worn out mistresses of USA and their illegitimate children. USA, army and talibans are entwined in a kind of mnage trois since 80`s. Saudia also played an important role of courier and financier. Since 2001, due to disagreement on objectives, every one is suspicious and jealous of other sleeping partner.In case of any misunderstanding, they kill civilians to vent their anger and express their displeasure. If one can change them into human characters, a nice erotic thriller movie can be produced on the events of past 30 yrs. The tag line can be 'A timeless tale of seduction, betrayal, debauchery and mayhem'.
 

Rana Tahir Mahmood

Senator (1k+ posts)
I think this story does not start from Ziaul-Haq but it started after the birth of Pakistan, when Liaqat Ali Khan went to USA in spite of USSR has invited to pay a visit to Moscow. Thereafter Russian President encircled RED DOT on Pakistan. Since birth of Pakistan, the leaders of Pakistan have so short sighted that they could not foresee the future relationship scenario. In stead of balancing the relation with all the major powers, they showed inclination towards America. The aftereffects of this attitude, we are still suffering and will continue to suffer because our leaders have never learned from their past mistakes and now the situation is like an Urdu quote "Ab main to kambal ko chhourta houn per kambal mujhay nahian chhourta hay".

Now with the change of world from bi-polar to uni-polar it is not so easy to tilt your policies. Murshads sharou say marwa rahain hain but we are not getting the real meaning of this phrase.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
I think this story does not start from Ziaul-Haq but it started after the birth of Pakistan, when Liaqat Ali Khan went to USA in spite of USSR has invited to pay a visit to Moscow. Thereafter Russian President encircled RED DOT on Pakistan. Since birth of Pakistan, the leaders of Pakistan have so short sighted that they could not foresee the future relationship scenario. In stead of balancing the relation with all the major powers, they showed inclination towards America. The aftereffects of this attitude, we are still suffering and will continue to suffer because our leaders have never learned from their past mistakes and now the situation is like an Urdu quote "Ab main to kambal ko chhourta houn per kambal mujhay nahian chhourta hay".

Now with the change of world from bi-polar to uni-polar it is not so easy to tilt your policies. Murshads sharou say marwa rahain hain but we are not getting the real meaning of this phrase.
her koi charte suraj ki poja krta he...
 

sngilani

Chief Minister (5k+ posts)
The Chinese relationship was vital for the US as it was trying to fix the mess in its Vietnam policy. With these concerns, the US administration neglected the internal domestic issues of Pakistan and allowed the dictator to have its way in East Pakistanhttp://www.chowk.com/tag/Pakistan. "The opening to China was an essential element in Nixon’s strategy of creating a new global balance of power. His aim was to bring China into the family of nations – reversing two decades of US efforts to isolate Beijing – and to use an improved US-Chinese relationship as a lever with Moscow to press on.
 

simple_and_peacefull

Chief Minister (5k+ posts)
brother behzadji,

can you like to share the source. so we can read more about it.

ضیاالحق نے جنرل چشتی سے کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘


محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

’ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں‘

انیس سو ستتر میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام طے ہوچکا تھا ، آپریشن فیئر پلے۔

آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق اپنے دستِ راست اور راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل فیض علی چشتی سے ملے۔ آپریشن کی جُزیات ایک بار پھر دہرائی گئیں اور جب فیض علی چشتی مشن پر روانہ ہونے لگے تو مستقبل کے مردِ مومن نے چشتی کے کان میں کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘۔

یہ جنرل ضیاءالحق کا انداز دِلرُبائی تھا۔ وہ اپنے جونیئر کی انا کو ایسے سہلاتے کہ وہ اپنے آپ کو سینیئر محسوس کرنے لگتا اور وہ اپنے سینیئر کے قدموں سے ایسے لپٹتے کہ اسے اپنے اوپر خدا کا روپ اترتے ہوئے محسوس ہوتا۔

شاید جنرل ضیاء اندر سے ڈرپوک تھے ورنہ ڈرنے کی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جنرل فیض علی چشتی کی مونچھوں اور توپوں کے سامنے کون سی جمہوری حکومت ٹھہرسکتی تھی۔ چشتی نے نہ کسی کو مارا نہ کسی کو مروایا۔ پانچ جولائی کی صبح سحر خیزوں کو یہ مژدہ مِلا کہ ایک اور وردی پوش مسیحا نازل ہوچکا ہے۔

پانچ جولائی کی رات کو تو کوئی نہیں مرا لیکن آئندہ گیارہ برسوں میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ پھانسی گھاٹوں پر، ٹھوڑی پھاٹک پر ، بوہری بازار میں، اوجھڑی کیمپ میں، طالبِ علم، مزدور، سیاسی کارکن اور کئی جوگھر سے بازار صرف دودھ خریدنے آئے تھےاور سینکڑوں ایسے تھے جو فوج کے عقوبت خانوں میں سالہاسال موت کی دعا مانگتے رہے۔

جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔ افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔
ملک کی جان اس وقت چھوٹی جب مردِ مومن و مردِ حق اپنے ساتھ ایک درجن سے زائد جرنیلوں سمیت ایک فضائی حاثے میں ہلاک ہوئے۔ اناللہِ واِناعلیہِ راجعون۔

جنرل ضیاء کے انتقال کے تیئیس سال بعد پاکستانی قوم میں بڑا تفرقہ ہے۔ ’بےغیرت گروپ‘ ’غیرت بریگیڈ‘ سے نبرد آزما ہے۔ بلوچ بندوقیں اٹھائے پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں۔ سندھی کہتے ہیں کہ ایک بار پھر زیادتی کرو توہم تمہیں بتاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض پر پھیلے سینکڑوں لشکر ’نصرمن اللہِ و الفتح قریب‘ کی بشارت دیتے ہیں۔

امریکا کی عمر رسیدہ رکھیلیں طلاق کی بھی دعوے دار ہیں اور اس بات سے بھی انکاری ہیں کہ کبھی نکاح ہوا تھا۔ نسل در نسل امریکی مفادات کی دلاّلی کرنے والے اس بات پر گھتم گھتا ہیں کہ کمیشن کم کر دیا جائے یا پرانی تنخواہ پر کام کیا جائے۔ اور تو اور آئی ایس آئی چلانے والے اللہ کے پراسرار بندے بھی پارلیمنٹ کے دروازے بند کر کے کہتے ہیں کہ ’پتہ نہیں ہم کیا کرتے پھر رہے ہیں‘۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔

لیکن مذ کورہ بالاگروہوں میں ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں۔

جنرل ضیاءالحق کا کوئی لے پالک سیاستدان، فوج کا کوئی ریٹائرڈ یا حاضرسروس جنرل شاہ فیصل مسجد کے صحن میں اس کے مزار پر سینہ ٹھونک کر نہیں کہتا کہ وہ ضیاءالحق کے مشن کی تکمیل کرےگا۔ ضیاء دور کے درس پڑھ کر بڑے ہونے والے ٹی وی اینکرز بھی یہ نہیں کہتے پائےجاتے کہ کاش اگر جنرل ضیاء حیات ہوتےتو ہم یوں راندہءِ درگاہ نہ ہوتے۔


جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے رواں دواں ہیں۔

جنرل ضیاء جب تک حیات رہے، ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میں ان کی ایک ہی پالیسی تھی کہ افغانستان کی ہانڈی ابلتی رہے، ابل کر باہر نہ گرے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہانڈی ابلتی رہے۔

افغانستان کی ہانڈی ابالتے ابالتے انہیں اپنے گھر میں لگنے والی آگ کی خبر نہ رہی۔ ان کے بعد آنے والوں نے اس ہانڈی کو ابالنے کے لیے اتنا ایندھن جھونکا کہ پاکستان میں لاکھوں چولھے ٹھنڈے ہوگئے۔

پارلیمنٹ کے بند دروازوں کے پیچھے ہمارے سیاسی اور فوجی سپہ سالاروں میں جو مکالمہ ہوا اس میں ہر ایک کی طبع کے مطابق گیڈر بھبھکیاں بھی ہیں اور سینہ کوبی کا سامان بھی ہے۔ اگر کسی بات کا ذکر نہیں ہے تو یہ نہیں ہے کہ تیس سال پہلے جو ہم نے اپنے ہمسائے میں آگ لگا کر ہاتھ تاپنے کی قومی سلامتی پالیسی بنائی تھی اس پر بھی ایک نظر ڈالیں یا نہیں۔

کیا کبھی کسی فوجی جنرل یا مدبر سیاستدان نے اس بات پرغور کیا ہے کہ ہمارے افغان بھائی کمیونسٹوں سے لے کر طالبان تک ہم سے اتنے متنفر کیوں ہیں؟

فوجی قیادت اور پارلیمان کے درمیان مکالمہ نہ جانے بارہ گھنٹے کیوں جاری رہا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دروازے بند کرتے، گھٹنوں کے بَل گرجاتے اور گِڑگِڑا کرکہتے ’مرشد مروا نہ دینا‘​
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
This article is written to break confidence of people of Pakistan. Whoever wrote is just cherry picking things to present a bad picture. The guy is definitely a stooge. Take any country and you can paint a similar or even worst picture. How about USA? or India? or Russia????