اوئے دلے ڈنگر کے بچے نانی چار سو بیس کو اپنے باپ کے پاس لے جا جیسے وہ تیری ماں کو ہر گاہک کے بعد پھٹکڑی والے پانی میں بٹھا کر نئے گاہک کے لئے تیار کرتا ہے اسے بھی کر دے گا اس طرح نانی چار سو بیس کا لندن کا خرچہ بھی بچ جائے گا اور تو بھی ٹٹے چوسنے والوں کا سردار بن جائے گا سوچ جب تو سب ٹٹے چوسنے والوں سے پہلے چوسے گا سب چوسیے تیرے بعد آئیں گے تو فیصلہ کرے گا کہ کون کتنے منٹ چوس سکتا ہے تیرے گھر والے کتنے خوش ہوں گے چوسیوں میں تو سب سے ممتاز ہو جائے گا اور یہ سب تیرے باپ اور پھٹکڑی کا مرہوں منت ہوگا یہ کم خرچ اور بالا نشین نسخہ ہے قطری بھی ہو سکتا ہے خوش ہو کر تجھے ہی چوسا رکھ لیں فوراً نانی سے رابطہ کر اس پہلے کہ وہ لندن سدھار جائے اور تیرا تاریک مستقبل مزید تاریک ہو جائےسارا کچھ حکمرانوں نے نہیں کرنا ہوتا جاہل یوتھیے۔ بہت کچھ عوام کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستانی عوام کی ترجیحات میں اس دنیا کی نہیں مرنے کے بعد کی زندگی ہے۔ اس لئے ان کو سب کچھ مرنے کے بعد ہی ملنے کی توقع رکھنی چاہئے۔ جو قوم ہر پانچ سو فٹ پر ایک مسجد بنا سکتی ہو، مگر اپنے لئے پورے شہر میں ایک ہسپتال تک بنانے کی زحمت نہ کرے، اس قوم کی یہی سزا ہے کہ وہ بیماریوں اور تکلیفوں سے مرے۔ جو قوم اپنی عورتوں کے کام کرنے اور روزگار کمانے کو فحاشی سمجھتی ہو، اس قوم کی یہی سزا ہے کہ وہ ہمیشہ غربت اور بدحالی کا شکار رہے۔ جو قوم وسائل کے حساب سے بچے پیدا کرنے پر یقین نہ رکھتی ہو، بلکہ یہ ایمان رکھتی ہو کہ ہر بچے کا رزق اللہ میاں بچے کی گاف کے ساتھ باندھ کر بھیجتا ہے، اس قوم کو پھر مہنگائی، بیروزگاری اور غربت پر شکوہ حکومت سے نہیں بلکہ اللہ میاں سے کرنا چاہئے۔۔
اس قوم کے 90 فیصد مسائل کی ذمہ دار یہ قوم خود ہے۔ نوازشریف اور مریم نواز پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ اس قوم کے کرتوتوں کی سزا خود کو دیں۔ ان کے پاس پیسہ ہے، انہوں نے محنت سے کمایا ہے، وہ لندن تو کیا دنیا کے جس کونے میں مرضی جاکر علاج کروائیں ان کو اس کا پورا حق حاصل ہے۔۔