مسیحا کا انتظار کیوں؟

maksyed

Siasat.pk - Blogger
مسیحا کا انتظار کیوں؟


حضرتِ انسان کی خامیوں میں سے ایک خامی یہ ہے کہ انسان اکثر اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتا ہے۔ وہ سب صلاحیتیں، خوبیاں، مہارتیں اور قابلیتیں جو اللہ تعالٰی نے انسان کو ودیعت کی ہیں، ان کے باوجود انسان اپنی ذات کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

انسان توجہ کا پیاسا ہے، مادی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے۔ اسے خدا کی ضرورت ہے، ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو اس کا خیال رکھے، مشکل میں اس کی مدد کرے، اس کی خواہشات پوری کرے، اللہ انسان کی مدد کرتا ہے۔ انسان اللہ کو محسوس کرتا ہے لیکن اسے مادی صورت میں دیکھ نہیں سکتا۔ اس لیے وہ صنم تراشتا ہے، ایسے بت بناتا ہے جن میں اسے خدا کی شبیہ نظر آتی ہے، اپنے خدا کو مادی شکل میں دیکھنے کے لیے جھوٹے مجسمے تخلیق کرتا ہے۔ کسی کا صنم عورت ہے تو کسی کا پیسہ، کوئی طاقت کا پجاری ہے تو کوئی شہرت کا۔ خدا کو کون پوچھتا ہے؟

وہ لوگ جو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے اور شرک میں مبتلا بھی نہیں ہونا چاہتے، ایسے لوگ مسیحا کی راہ دیکھتے ہیں۔ مافوق الفطرت طاقتوں کے حامل انسان کی تلاش کرتے ہیں جو ان کے مسائل حل کرے، ان کی رہنمائی کرے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھائے۔ ایسے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہتے ہیں اور جب ان سے کچھ کرنے کو کہا جائے تو ایک ہاتھ اٹھا کر مکھی اڑا کر کہتے ہیں کہ "ہم سے یہ نہیں ہو سکتا؛ ہم میں اتنی قابلیت نہیں، میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں، بھائی صاحب آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، او یار پہلے پیٹ تو بھرنے دے۔"

میرا یقین ہے کہ ہر انسان کو اللہ نے اتنی صلاحیتیں دی ہیں کہ وہ ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ میں آپ کو ایک کرسی بنانے کا کہتا ہوں، آپ کو لکڑی اور اوزار دے دیتا ہوں، آپ کو سکھا دیتا ہوں کہ کرسی بنانی کیسے ہے، اب اگر آپ کی نیت ہی نہ ہو اور آپ کو اپنی ذات پر اعتماد ہی نہ ہو تو میں کیسے آپ سے کرسی بنوا سکتا ہوں؟ اللہ نے انسان کو اوزار دے دیے ہیں، اسے اوزاروں کا استعمال سکھا دیا ہے، اب اگر انسان اپنا دماغ استعمال نہ کرے، اسے اپنی ذات پر اعتماد ہی نہ ہو، وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے دوسروں سے امیدیں لگائے، تو اللہ ایسے شخص کا کیا کرے۔


ہماری پوری کی پوری قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی بندہ آئے، ہماری ٹانگیں پکڑ کر چارپائی سے نیچے کرے، ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کرے، اپنے کندھے پر ہمیں بٹھا کر ہمارا پھیلایا ہوا گند صاف کرے اور پھر سے ہمیں صاف ستھرے نرم و گرم بستر پر لٹا دے تا کہ ہم دوبارہ آرام کی نیند سو سکیں۔

آپ قیامت تک انتظار کر لیں، نہ تو اللہ خود آ کر یہ کام کرے گا اور نہ ہی اپنے فرشتے آپ کی خدمت کے لیے بھیجے گا۔ اگر آپ اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو خود کچھ کیجیے ورنہ جان لیجیے کہ قیامت تک پٹتے رہیں گے۔ ہماری قوم تو ایسی ہے کہ یہاں اب انگریز بھی دوبارہ نہیں آنے والا اور نہ ہی کبھی امریکہ اس ملک کو اپنی ریاست بنائے گا۔ وہ باہر بیٹھ کر ہم پر ہمارے ہی "لوٹوں" کے ذریعے حکومت کرے گا اور اپنا الو سیدھا کرے گا۔ اس میں اس کا قصور بھی تو نہیں۔ ہم خود ہی ایسے "صارفین" کی تلاش میں ہیں جو ہمارا زیادہ سے زیادہ ریٹ لگائیں، پھر چاہے ہماری ایسی تیسی کر دیں ہماری بلا سے۔

اگر ہم لوگ واقعی اپنے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں مسیحا کا راستہ دیکھنے کی بجائے اپنے آپ پر اعتماد کرنا چاہیے، اپنے آپ کو انفرادی سطح پر ٹھیک کرنا چاہیے، جب ہم اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو اور اپنے دوستوں کو ٹھیک کر لیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا، یقین کیجیے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
 

Back
Top