پاکستان میں چونکہ جنسی گھٹن بہت زیادہ ہے، نوعمری میں تو لڑکے اور لڑکیوں کو آپس میں گھلنے ملنے سے ایسے پرہیز کرایا جاتا ہے جیسے دونوں کو ایک دوسرے سے کینسر کی بیماری لگ جائے گی، لڑکیوں کو دس بارہ سال کی عمر سے ہی برقعے میں لپیٹنا شروع کردیا جاتا ہے، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے سے وہ اپنی جائز فطری جنسی ضروریات پوری نہیں کرپاتے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بالغ لڑکا ہو یا لڑکی جنسی ہارمونز کے غلبے کی وجہ سے نہ تو وہ تعلیم پر پوری طرح توجہ دے پاتے ہیں اور نہ ہی کیرئیر پر فوکس کر پاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس اپنی جنسی فرسٹریشن دور کرنے کا ایک ہی ذریعہ بچتا ہے اور وہ ہے مشت زنی / ماسٹربیشن۔
سکول یا کالج میں پڑھنے والا لڑکا ہو یا لڑکی اگر اس کو سیکس کرنے کیلئے کوئی پارٹنر میسر نہیں ہوا تو اس کے لئے سب سے بہترین طریقہ ہے کہ وہ مشت زنی کرے، اس کے بیش بہا فوائد ہیں۔ مشت زنی سے سیرو ٹونن، ڈوپامین اور آکسی ٹوسن نامی کیمیکلز ریلیز ہوتے ہیں جس سے آپ کا جسم بے انتہا مسرت محسوس کرتا ہے اور ایک دم ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے۔ آپ تناؤ کی کیفیت سے باہر آجاتے ہیں اور آپ کے سر پر جو جنسی غبار چڑھا ہوتا ہے وہ وقتی طور پر ٹل جاتا ہے۔ مشت زنی کو اعتدال میں رہتے ہوئے کیا جائے تو نہ صرف انسان جنسی فرسٹریشن سے بچا رہتا ہے بلکہ اس کے جنسی اعضاء بھی کارآمد رہتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جہالت کی وجہ سے مشت زنی کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی وہ مشت زنی کرتے تو ہیں مگر احساسِ گناہ کے ساتھ ۔ کئی نوجوان تو مشت زنی کو گناہ سمجھتے ہوئے حتی المقدور اس سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے جنسی جذبات کو دباتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی برباد ہوتی ہے اور جنسی اعضاء بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں اور جب وہ شادی کی منزل تک پہنچتے ہیں تو پھر حکیموں کے چکر لگانا شروع کردیتے ہیں۔ کسی بھی مشینری کو اگر آپ استعمال نہیں کرو گے تو وہ خراب تو ہوگی ہی ، یہ تو طے شدہ بات ہے۔
انسانی جسم اور اس کی ضروریات میڈیکل سائنس کا موضوع ہے، مگر کیا کیا جائے پرانے زمانوں کی جہالت کا جو مذہب کے نام پر ہم پر مسلط ہے، وہ میڈیکل سائنس کی ڈومین میں بھی گھسی ہوئی ہے۔ بھلا مذہب کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی جائز فطری ضرورت پر پابندیاں لگائے؟ جو معاشرے یہ بات سمجھ گئے انہوں نے مذہبی جہالت کو اتار پھینکا، کائنات کو اور انسانی جسم کو عقل، سائنس اور ریزن سے سمجھا وہ معاشرے ہم سے کہیں آگے نکل گئے، ہمارے سماج آج بھی عورت، مرد، حلال، حرام، نماز، روزے کے چکر سے نہیں نکل پائے۔ صدیوں پرانی جہالت کی زنجیروں کو خود ہی کاٹ کر اپنے پیروں سے نکالنا پڑتا ہے، وگرنہ زمانے سے بہت پیچھے رہ جاؤ گے۔۔۔
سکول یا کالج میں پڑھنے والا لڑکا ہو یا لڑکی اگر اس کو سیکس کرنے کیلئے کوئی پارٹنر میسر نہیں ہوا تو اس کے لئے سب سے بہترین طریقہ ہے کہ وہ مشت زنی کرے، اس کے بیش بہا فوائد ہیں۔ مشت زنی سے سیرو ٹونن، ڈوپامین اور آکسی ٹوسن نامی کیمیکلز ریلیز ہوتے ہیں جس سے آپ کا جسم بے انتہا مسرت محسوس کرتا ہے اور ایک دم ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے۔ آپ تناؤ کی کیفیت سے باہر آجاتے ہیں اور آپ کے سر پر جو جنسی غبار چڑھا ہوتا ہے وہ وقتی طور پر ٹل جاتا ہے۔ مشت زنی کو اعتدال میں رہتے ہوئے کیا جائے تو نہ صرف انسان جنسی فرسٹریشن سے بچا رہتا ہے بلکہ اس کے جنسی اعضاء بھی کارآمد رہتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جہالت کی وجہ سے مشت زنی کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی وہ مشت زنی کرتے تو ہیں مگر احساسِ گناہ کے ساتھ ۔ کئی نوجوان تو مشت زنی کو گناہ سمجھتے ہوئے حتی المقدور اس سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے جنسی جذبات کو دباتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی برباد ہوتی ہے اور جنسی اعضاء بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں اور جب وہ شادی کی منزل تک پہنچتے ہیں تو پھر حکیموں کے چکر لگانا شروع کردیتے ہیں۔ کسی بھی مشینری کو اگر آپ استعمال نہیں کرو گے تو وہ خراب تو ہوگی ہی ، یہ تو طے شدہ بات ہے۔
انسانی جسم اور اس کی ضروریات میڈیکل سائنس کا موضوع ہے، مگر کیا کیا جائے پرانے زمانوں کی جہالت کا جو مذہب کے نام پر ہم پر مسلط ہے، وہ میڈیکل سائنس کی ڈومین میں بھی گھسی ہوئی ہے۔ بھلا مذہب کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ انسان کی جائز فطری ضرورت پر پابندیاں لگائے؟ جو معاشرے یہ بات سمجھ گئے انہوں نے مذہبی جہالت کو اتار پھینکا، کائنات کو اور انسانی جسم کو عقل، سائنس اور ریزن سے سمجھا وہ معاشرے ہم سے کہیں آگے نکل گئے، ہمارے سماج آج بھی عورت، مرد، حلال، حرام، نماز، روزے کے چکر سے نہیں نکل پائے۔ صدیوں پرانی جہالت کی زنجیروں کو خود ہی کاٹ کر اپنے پیروں سے نکالنا پڑتا ہے، وگرنہ زمانے سے بہت پیچھے رہ جاؤ گے۔۔۔
