
کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے اہم انکشافات پیش کیے ہیں۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جائے وقوعہ پر کارپٹ پر لگے خون کے نمونے کا ڈی این اے مدعیہ مقدمہ سے میچ کر گیا ہے، جبکہ ملزم ارمغان کے کمرے کے کارپٹ پر موجود دو خون کے نمونوں میں سے ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان نے انٹروگیشن کے دوران بتایا کہ واقعے سے ایک روز قبل زوما نامی لڑکی کو بھی اسی کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ زوما نامی لڑکی کا پتہ لگانے کے لیے ملزمان کی نشاندہی ضروری ہے، تاکہ اس کا بلڈ سیمپل لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل کیس میں مارشا اور انجلینا نامی دو لڑکیوں کا نام بھی سامنے آ چکا ہے۔
تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزم ارمغان بوٹ بیسن، کلفٹن، درخشان اور ساحل تھانے میں درج متعدد مقدمات میں مفرور ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کے خلاف ان مقدمات میں بھی کارروائی کی جائے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور وئیر ہاؤس چلا رہا تھا، جبکہ اس کے دیگر ساتھیوں، جن میں نعمان سمیت دیگر افراد شامل ہیں، کی تلاش جاری ہے۔ اس کے علاوہ، ملزم ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، اور اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ 25 جنوری کو مقتول کی والدہ کو ایک امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کرکے کیس کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دیا گیا۔
9 فروری کو اے وی سی سی نے ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی، جس سے ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، لیکن جج نے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کی۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرکے لاش ملیر میں پھینک دی، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ بعد میں اے وی سی سی، سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی میں ملزم کے دوست شیراز کو گرفتار کیا گیا، جس نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے اس کی مدد سے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو گھر میں تشدد کرکے قتل کیا اور لاش کو اس کی گاڑی میں حب لے جا کر نذر آتش کر دیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ارمغان کے خلاف مزید مقدمات میں کارروائی کی جائے، جبکہ زوما نامی لڑکی کی تلاش کے لیے ملزمان کی مدد درکار ہے۔ کیس کی سماعت جاری ہے، اور عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست پر غور کرتے ہوئے مزید کارروائی کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔