کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اس معاشرے کے افراد کو صحت مند سیکس کا ماحول ملنا نہایت ضروری ہے۔ بالغ ہونے کے بعد لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کیلئے سب سے شدید خواہش اور ضرورت سیکس کی ہوتی ہے۔ جیسے انسان کو بھوک لگنے پر کھانا اور پیاس لگنے پر پانی کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بالغ انسان کو سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک بھوکے انسان کو جب تک پیٹ بھر کر کھانا نہ ملے تب تک اس کے دماغ پر صرف روٹی کی خواہش ہی چھائی رہے گی، ایسا ہی جب کسی بالغ انسان کو سیکس نہ ملے تو اس کے ذہن پر صرف اور صرف سیکس کے خیالات ہی چھائے رہیں گے۔ ایک صحت مند سیکس معاشرے کے افراد کو جنسی طور پر آسودہ کرکے ان کے ذہن کو باقی کاموں کیلئے آزاد کردیتا ہے، پھر انسان نئے نئے آئیڈیاز سوچتا ہے،، نئی دریافتیں کرتا ہے، دنیا کو نئی چیزیں دیتا ہے۔ صحت مند سیکس سے میری مراد ایسا سیکس ہےمیں جس میں کوئی شخص اپنی پسند کے پارٹنر کے ساتھ بغیر کسی پابندی اور روک ٹوک کے مکمل پرائیویسی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے۔ جب کوئی انسان ایک صحت مند سیکس کرتا ہے تو اس کا دماغ سیروٹونن، آکسی ٹوسن اور ڈوپامین جیسے کیمیکلز ریلیز کرتا ہے، جس سے انسان کا پورا بدن خوشی، مسرت سے بھر جاتا ہے ،اس میں نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دنیا پر چھا جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔
دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے افراد کو آزادانہ اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کا ماحول نہیں ملتا، پھر وہ چھپ چھپا کر چوری چھپے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد افراد شادی سے پہلے کسی نہ کسی طرح سیکس کرلیتے ہیں، مگر پھر بھی وہ جنسی طور پر آسودہ نہیں ہوپاتے۔ کیونکہ ایک تو وہ آزادانہ سیکس نہیں کرپاتے، ان کو اپنے ماں باپ سے، سماج سے چھپ چھپا کر کوئی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے، وہاں بھی سیکس کرتے وقت ان کے ذہن پر ڈر اور احساسِ گناہ سوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سیکس کرکے بھی وہ جنسی طور پر فرسٹریٹڈ ہی رہتے ہیں۔ مزید برآں سیکس کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کو مہینے میں ایک آدھ بار کرلیا تو ضرورت پوری ہوگئی، سیکس تو جسم کی اپنی طلب پر منحصر ہوتا ہے کہ کس کو دن میں یا ہفتے میں کتنی بار سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر شخص ، ہر مرد اور عورت کو اپنی جسمانی خواہش کے حساب سے سیکس کرنے کی پوری آزادی ہو تب جاکر ان کے اندر سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوتی ہے۔
جن معاشروں نے صدیوں پہلے کے مذہبی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے بغیر شادی کے سیکس کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے، وہ معاشرے اپنے افراد کو شادی سے پہلے سیکس کرنے سے روکنے سے تو ناکام رہے ہیں،ہاں مگر انہوں نے اس جاہلانہ پابندی سے اپنے معاشرے کے افراد کو ناکارہ اور فرسٹریٹڈ ضرور بنادیا ہے۔ آپ دیکھ لیں جن معاشروں میں سیکس کرنے کی آزادی ہے، وہاں کے افرادہر فیلڈ میں آگے ہیں، تعلیم میں آگے ہیں، شعور میں آگے ہیں، وہ نت نئی دریافتیں کرتے ہیں، نئی نئی ایجادات کرتے ہیں، دنیا کو نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہیں، دوسری طرف جن معاشروں میں سیکس پر بلاوجہ کی پابندیاں ہیں، وہاں ہر انسان کے ذہن پر سیکس سوار رہتا ہے،مردوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی بازار میں کسی آفس میں عورت ہو تو وہاں کے مردوں کی نگاہیں اسی کا طواف کرتی رہیں گی۔
ہمارے معاشروں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شادی سے جنسی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور جوائنٹ فیملی کا جو سسٹم ہے اس نے صحت مند سیکس کا تو قتل ہی کردیا ہے۔ ایک تو لڑکے لڑکی کو پسند کی شادی کی آزادی بہت کم ہے، دوسرا شادی کے بعد گھر میں جو ماحول ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ، کمروں کے ساتھ کمرے ٹھکے ہوتے ہیں، کئی کئی جوڑے چند مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، بچوں کی یلغار ہوتی ہے، ایسے میں میاں بیوی کیلئے سیکس کرنا بہت بڑے سٹنگ آپریشن سے کم نہیں ہے۔ کیا ایسے ماحول میں پرسکون سیکس ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی نے اپنی سانسیں اور آوازیں روک کر ، جلدی جلدی سیکس کی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر منٹو کا افسانہ "ننگی آوازیں" پڑھنے لائق ہے۔
قصہ مختصر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے آسودہ حال ہو تو ہمیں سب سے پہلے مذہبی جہالت پر مبنی بلاوجہ کی پابندیوں کو سیکس سے ہٹانا ہوگا۔ سیکس مرد اور عورت کی ایک جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو مرد اور عورت کو پورا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ جب لوگوں کی یہ جائز ضرورت پوری ہوگی، ان کے ذہن سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوجائے گی، تبھی ان کا دماغ کچھ کارآمد کرنے کے قابل ہوگا۔ سیکس کو شادی کے بندھن سے آزادکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی کی جلد شادی کرکے، ان پر بچوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا، اس سے آبادی بھی کنٹرول میں رہے گی اور معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے گولز کو بھی اچیو کرپائیں گے، کیونکہ زیادہ تر افراد سیکس کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے جب شادی کرتے ہیں تو ان کے گولز بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں ، وہ میاں بیوی بچوں کے چکر میں الجھ کر اپنی زندگی برباد کربیٹھتے ہیں۔۔
دیگر مسلم معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ سیکس کو شادی کے ساتھ نتھی کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے افراد کو آزادانہ اپنی جنسی ضرورت پورا کرنے کا ماحول نہیں ملتا، پھر وہ چھپ چھپا کر چوری چھپے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی جنسی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد افراد شادی سے پہلے کسی نہ کسی طرح سیکس کرلیتے ہیں، مگر پھر بھی وہ جنسی طور پر آسودہ نہیں ہوپاتے۔ کیونکہ ایک تو وہ آزادانہ سیکس نہیں کرپاتے، ان کو اپنے ماں باپ سے، سماج سے چھپ چھپا کر کوئی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے، وہاں بھی سیکس کرتے وقت ان کے ذہن پر ڈر اور احساسِ گناہ سوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سیکس کرکے بھی وہ جنسی طور پر فرسٹریٹڈ ہی رہتے ہیں۔ مزید برآں سیکس کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کو مہینے میں ایک آدھ بار کرلیا تو ضرورت پوری ہوگئی، سیکس تو جسم کی اپنی طلب پر منحصر ہوتا ہے کہ کس کو دن میں یا ہفتے میں کتنی بار سیکس کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر شخص ، ہر مرد اور عورت کو اپنی جسمانی خواہش کے حساب سے سیکس کرنے کی پوری آزادی ہو تب جاکر ان کے اندر سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوتی ہے۔
جن معاشروں نے صدیوں پہلے کے مذہبی اصولوں کو فالو کرتے ہوئے بغیر شادی کے سیکس کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے، وہ معاشرے اپنے افراد کو شادی سے پہلے سیکس کرنے سے روکنے سے تو ناکام رہے ہیں،ہاں مگر انہوں نے اس جاہلانہ پابندی سے اپنے معاشرے کے افراد کو ناکارہ اور فرسٹریٹڈ ضرور بنادیا ہے۔ آپ دیکھ لیں جن معاشروں میں سیکس کرنے کی آزادی ہے، وہاں کے افرادہر فیلڈ میں آگے ہیں، تعلیم میں آگے ہیں، شعور میں آگے ہیں، وہ نت نئی دریافتیں کرتے ہیں، نئی نئی ایجادات کرتے ہیں، دنیا کو نئی جہتوں سے روشناس کرواتے ہیں، دوسری طرف جن معاشروں میں سیکس پر بلاوجہ کی پابندیاں ہیں، وہاں ہر انسان کے ذہن پر سیکس سوار رہتا ہے،مردوں کے ذہن پر ہر وقت عورت سوار رہتی ہے، کسی بازار میں کسی آفس میں عورت ہو تو وہاں کے مردوں کی نگاہیں اسی کا طواف کرتی رہیں گی۔
ہمارے معاشروں میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی ہے کہ شادی سے جنسی آسودگی کا سامان ہوجاتا ہے، جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے ہاں شادی اور جوائنٹ فیملی کا جو سسٹم ہے اس نے صحت مند سیکس کا تو قتل ہی کردیا ہے۔ ایک تو لڑکے لڑکی کو پسند کی شادی کی آزادی بہت کم ہے، دوسرا شادی کے بعد گھر میں جو ماحول ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ، کمروں کے ساتھ کمرے ٹھکے ہوتے ہیں، کئی کئی جوڑے چند مرلے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے ہوتے ہیں، بچوں کی یلغار ہوتی ہے، ایسے میں میاں بیوی کیلئے سیکس کرنا بہت بڑے سٹنگ آپریشن سے کم نہیں ہے۔ کیا ایسے ماحول میں پرسکون سیکس ہوسکتا ہے؟ میاں بیوی نے اپنی سانسیں اور آوازیں روک کر ، جلدی جلدی سیکس کی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس موضوع پر منٹو کا افسانہ "ننگی آوازیں" پڑھنے لائق ہے۔
قصہ مختصر، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے آسودہ حال ہو تو ہمیں سب سے پہلے مذہبی جہالت پر مبنی بلاوجہ کی پابندیوں کو سیکس سے ہٹانا ہوگا۔ سیکس مرد اور عورت کی ایک جائز ضرورت ہے، اس ضرورت کو مرد اور عورت کو پورا کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ جب لوگوں کی یہ جائز ضرورت پوری ہوگی، ان کے ذہن سے جنسی فرسٹریشن ختم ہوجائے گی، تبھی ان کا دماغ کچھ کارآمد کرنے کے قابل ہوگا۔ سیکس کو شادی کے بندھن سے آزادکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی کی جلد شادی کرکے، ان پر بچوں اور ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالنا پڑے گا، اس سے آبادی بھی کنٹرول میں رہے گی اور معاشرے کے افراد اپنی زندگی کے گولز کو بھی اچیو کرپائیں گے، کیونکہ زیادہ تر افراد سیکس کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے جب شادی کرتے ہیں تو ان کے گولز بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں ، وہ میاں بیوی بچوں کے چکر میں الجھ کر اپنی زندگی برباد کربیٹھتے ہیں۔۔
