
اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اختیار پر جاری تنازعے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ عدالت عالیہ کے دو سینئر ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے اپنے تحریری آرڈر میں جسٹس بابر ستار کے مؤقف کی مکمل تائید کر دی ہے، جو اس سے قبل اسی تنازع پر مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں۔
اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب سنگل بینچ کے مقدمات اچانک بغیر کسی واضح قانونی بنیاد کے ڈویژن بینچز کو منتقل کیے جانے لگے۔ اس صورتحال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے شدید حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے تحریری فیصلے میں اسے غیر معمولی اقدام قرار دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی عدالت سے ایک مقدمہ منتقل کیے جانے پر تشکیل دیے گئے ڈویژن بینچ—جس میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز شامل تھے—نے اس معاملے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے برملا سوال اٹھایا کہ سنگل بینچ کا مقدمہ کس قانونی بنیاد پر ڈویژن بینچ کو بھیجا جا سکتا ہے؟ اس پر فریقین کے وکلاء نے بھی اتفاق کیا کہ وہ اس اقدام پر حیران اور پریشان ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بظاہر مقدمات کی منتقلی قائم مقام چیف جسٹس کے حکم پر ہوئی ہے، لیکن عدالت کے سامنے ایسی کوئی قانونی شق یا انتظامی حکم نامہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ایسا کیا جا سکے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ تو کمیشن بنانے کی درخواست تھی، مگر اس کے ساتھ 21 ٹیکس مقدمات بھی منتقل کر دیے گئے۔"
جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ مقدمہ سنگل بینچ کے سامنے مکمل طور پر سنا جا چکا ہے، اور اس کے باوجود اسے بغیر کسی قانونی جواز کے دوسرے بینچ کو منتقل کرنا غیر مناسب ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جسٹس بابر ستار اس معاملے پر پہلے ہی ایک مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار کس طرح استعمال کیا جانا چاہیے۔
اپنے تحریری فیصلے میں جسٹس محسن اختر کیانی نے لکھا:
"رجسٹرار آفس ان مقدمات کو دوبارہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے رکھے، اور چیف جسٹس، ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اپنے اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ توقع ہے کہ مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں متعلقہ بینچز کے سامنے جلد مقرر کیا جائے گا۔"