Acha yar tumharay message parh parh k mujhy Ehd-e-Bajwa yaad araha hay jab issi forum pay Bajwa ki pics laga laga k Bajwa doctrine ki tareefain ki jati theen, Bajway k danday ki subah sham posts hoti theen, even aik tweet tou hundreds times yahan share kiya gaya jismayn Bajwa shows his stick and posters kehtay thay k "abhi tak tou sirf itna ander gaya hay".
Aj tum log bhi wohhi kuch karehy ho, kal ko phir aglon nay kisi aur ko goud lay lena hay aur jo opposite hoga uski phenti lagayen gay tou dobara koi doctrine bunjayegi, larki k bahi etc jesay fiqray kussay jayen gay etc.
عہدِ باجوہ سے عہدِ عاصم اور پھر اس سے آگے جو نئے جرنیل آئیں گے ان کے عہد، یہی سب چلتا رہے گا۔ جب تک اس قوم کے کچھ تصورات اور نظریات کلیئر نہیں ہوتے، یہی سب چلتا ہی رہے گا۔۔
مغرب کی موجودہ جمہوری شکل کے پیچھے ان کی عوام کی واضح سوچ ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ ہم چرچ کو سٹیٹ سے الگ رکھیں گے، حکومت اور عوام دونوں سوشل کانٹریکٹ کی پاسداری کریں گے، دونوں فریق اس کانٹریکٹ کو توڑیں گے نہیں، حکومت اور عوام میں رشتہ حاکم اور محکوم یا مالک اور رعایا کا نہیں بلکہ دو فریقوں کا ہوگا، شخصی آزادی ہارم پرنسپل کے تحت زیادہ سے زیادہ ہوگی، ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوگی جب تک کہ وہ کسی دوسرے کے خلاف وائلنس پر نہ اکسائے، یہ تصورات ان عوام کے جڑوں میں گڑے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ان معاشروں میں مضبوط جمہوریت قائم ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ شروع دن سے عوام کو مذہب کی گھٹی میں پروان چڑھایا جاتا ہے، آئین مغرب سے مستعار لے کر اس میں اسلام کی ملاوٹ کرکے اس کو عجیب ملغوبہ بنادیا جاتا ہے،، عوام ابھی تک حکومت کرنے والوں کو بادشاہ اور خود کو رعایا سمجھتی ہے، سوشل کانٹریکٹ کا یہاں کوئی تصور نہیں ہے، ریاست کس حد تک شخصی آزادیوں میں دخل دے سکتی ہے، کچھ علم نہیں، ایسی گھاس چرن عوام ایسے ہی گھن چکر میں پستی رہے گی۔۔۔
مغرب کی موجودہ جمہوری شکل کے پیچھے ان کی عوام کی واضح سوچ ہے اور وہ سوچ یہ ہے کہ ہم چرچ کو سٹیٹ سے الگ رکھیں گے، حکومت اور عوام دونوں سوشل کانٹریکٹ کی پاسداری کریں گے، دونوں فریق اس کانٹریکٹ کو توڑیں گے نہیں، حکومت اور عوام میں رشتہ حاکم اور محکوم یا مالک اور رعایا کا نہیں بلکہ دو فریقوں کا ہوگا، شخصی آزادی ہارم پرنسپل کے تحت زیادہ سے زیادہ ہوگی، ہر کسی کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوگی جب تک کہ وہ کسی دوسرے کے خلاف وائلنس پر نہ اکسائے، یہ تصورات ان عوام کے جڑوں میں گڑے ہیں اور انہی کی بنیاد پر ان معاشروں میں مضبوط جمہوریت قائم ہے۔
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ شروع دن سے عوام کو مذہب کی گھٹی میں پروان چڑھایا جاتا ہے، آئین مغرب سے مستعار لے کر اس میں اسلام کی ملاوٹ کرکے اس کو عجیب ملغوبہ بنادیا جاتا ہے،، عوام ابھی تک حکومت کرنے والوں کو بادشاہ اور خود کو رعایا سمجھتی ہے، سوشل کانٹریکٹ کا یہاں کوئی تصور نہیں ہے، ریاست کس حد تک شخصی آزادیوں میں دخل دے سکتی ہے، کچھ علم نہیں، ایسی گھاس چرن عوام ایسے ہی گھن چکر میں پستی رہے گی۔۔۔