ملک ریاض کودبئی سے انٹر پول کے ذریعے پاکستان لانے کی کاروائی کا آغاز

Untitled-design-(82)1733479799-0.jpg


پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی حوالگی کے لیے باضابطہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ نیب نے اس سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو خط لکھ دیا ہے تاکہ انٹرپول کے ذریعے ملک ریاض کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے۔

ملک ریاض پر القادر ٹرسٹ کیس میں بدعنوانی کے الزامات عائد ہیں، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی شریک ملزم کے طور پر عدالت میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیب کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ملک ریاض کی حوالگی کے لیے یہ کارروائی القادر ٹرسٹ کیس کے تحت کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل، وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان، متحدہ عرب امارات کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کے تحت ملک ریاض کی واپسی کے لیے اقدامات کرے گی۔ اسی سلسلے میں نیب نے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ وہ دبئی میں ملک ریاض کے نئے لگژری اپارٹمنٹ منصوبے میں سرمایہ کاری نہ کریں، کیونکہ یہ مبینہ طور پر منی لانڈرنگ سے جُڑا معاملہ ہے، اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد مجرمانہ قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتے ہیں۔

ملک ریاض نے نیب کے ان اقدامات پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کہا کہ ان کے خلاف مقدمات جعلی اور بلیک میلنگ پر مبنی ہیں، اور انہیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی دباؤ کے تحت گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں رہا۔

ملک ریاض، جو اس وقت دبئی میں مقیم ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز میں شمار ہوتے ہیں اور بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ہیں، جو ایشیا کی سب سے بڑی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

یہ معاملہ اس وقت زیادہ توجہ کا مرکز بنا جب رواں ماہ کے آغاز میں ایک پاکستانی عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں 14 سال قید اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں الزام ہے کہ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے دوران ملک ریاض سے زمین بطور رشوت حاصل کی، تاہم عمران خان نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ صرف اس ٹرسٹ کے نگران تھے اور انہیں کسی ذاتی فائدے کا علم نہیں تھا۔

یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب 2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے ملک ریاض کے برطانوی بینک اکاؤنٹس اور لندن کے مہنگے علاقے میں ایک جائیداد کو منجمد کر دیا تھا، جس کی مالیت 190 ملین پاؤنڈ تھی۔ بعدازاں یہ رقم ایک معاہدے کے تحت پاکستانی حکومت کو واپس کر دی گئی۔ تاہم، پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ملک ریاض کے عدالتی جرمانے کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی، جو کہ غیر قانونی تھا۔

ملک ریاض اور عمران خان دونوں نے اس مقدمے میں کسی بھی بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ پاکستانی حکومت اب نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے ملک ریاض کی وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے تاکہ ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکے۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)




کل تک جب ملک ریاض ان سب لٹیروں کو لمبا کھلاتا رہا اسوقت تک وہ ان سب لوگوں کا مسیحا اور ولی تھا لیکن آج اس نے اپنی کاروباری مجبوریوں کے تحت ہاتھ کھینچ لیا ہے تو وہ ان کے لیے دنیا کا سب سے بڑا مجرم بن گیا ہے

What a SHAME.
 

Back
Top