جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سیاسی رہنما عام طور پر آپس میں لڑتے رہتے ہیں، اور جو لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں، انہیں بھی "مینیج" کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر انتخابات کو بھی مینیج کیا گیا ہے، اور خیبرپختونخوا میں بھی عوامی مینڈیٹ نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک بنایا ہوا مینڈیٹ ہے۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں ریاست کی غلطیوں کا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے، لیکن ایران نے انہیں پناہ تو دی مگر جنگ کے لیے بیس کیمپ قائم نہیں کیا۔
انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور انتخابات کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے ان کا اختلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں وہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ ماضی کی کامیابیوں کو آگے بڑھا سکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔
https://twitter.com/x/status/1903513372387135772
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں سینئر تسلیم کیا جاتا ہے، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بڑے ہونے کے ناطے ایسا کردار ادا کریں جس سے مسائل حل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ نواز شریف کا احترام کیا ہے، لیکن اب وہ سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا کوئی بڑا کردار نظر نہیں آ رہا، اور معاملات بگڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات خراب ہو گئے ہیں، اور موجودہ حکومت پر ان کا اعتماد نہیں ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جمہوریت کو شکست ہوئی تو انتہا پسندی اور شدت پسندی کامیاب ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات میں اعتدال آ رہا ہے، اور رویوں میں نرمی پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع بڑھ رہے ہیں، اور یہ ایک اچھی سمت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ ہمیشہ بہتر تعلقات کے لیے کوشش کرتے ہیں، اور یہ نہیں چاہتے کہ محدود وقت کے لیے دوستی کی جائے اور پھر ختم کر دی جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کا کردار کیا ہو گا، یہ انہیں خود طے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں گنجائش ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے اور بات چیت ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جس میں مستقبل کی پالیسیاں طے کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی عوامی مینڈیٹ نہیں دیا گیا، بلکہ یہ ایک بنایا ہوا مینڈیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی دونوں اب اپوزیشن میں ہیں، اور پی ٹی آئی کو بھی انتخابات پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ انتخابات پر اعتراض کر رہے تھے، تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جو ان کے اتحاد میں شامل تھی، لیکن اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں ریاست کی غلطیوں کا بڑا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران کی طرف بھی گئے، لیکن ایران نے انہیں پناہ تو دی مگر جنگ کے لیے بیس کیمپ قائم نہیں کیا۔
انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور انتخابات کو تسلیم کرنے والی جماعتوں سے ان کا اختلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں وہ صلاحیت کیوں نہیں ہے کہ وہ ماضی کی کامیابیوں کو آگے بڑھا سکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔
https://twitter.com/x/status/1903513372387135772
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاست میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں سینئر تسلیم کیا جاتا ہے، اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بڑے ہونے کے ناطے ایسا کردار ادا کریں جس سے مسائل حل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ نواز شریف کا احترام کیا ہے، لیکن اب وہ سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا کوئی بڑا کردار نظر نہیں آ رہا، اور معاملات بگڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات خراب ہو گئے ہیں، اور موجودہ حکومت پر ان کا اعتماد نہیں ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر جمہوریت کو شکست ہوئی تو انتہا پسندی اور شدت پسندی کامیاب ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات میں اعتدال آ رہا ہے، اور رویوں میں نرمی پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع بڑھ رہے ہیں، اور یہ ایک اچھی سمت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ ہمیشہ بہتر تعلقات کے لیے کوشش کرتے ہیں، اور یہ نہیں چاہتے کہ محدود وقت کے لیے دوستی کی جائے اور پھر ختم کر دی جائے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کا کردار کیا ہو گا، یہ انہیں خود طے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں گنجائش ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے اور بات چیت ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ عید کے بعد جے یو آئی نے جنرل کونسل کا اجلاس بلایا ہے، جس میں مستقبل کی پالیسیاں طے کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی عوامی مینڈیٹ نہیں دیا گیا، بلکہ یہ ایک بنایا ہوا مینڈیٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی دونوں اب اپوزیشن میں ہیں، اور پی ٹی آئی کو بھی انتخابات پر اعتماد نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ انتخابات پر اعتراض کر رہے تھے، تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، جو ان کے اتحاد میں شامل تھی، لیکن اب وہی پوزیشن پی ٹی آئی کی ہے۔