
نئی شامی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں نے ملک کے مغربی حصے میں گھات لگا کر حملے کیے، جس کے نتیجے میں وزارت داخلہ کے 14 فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ واقعہ بحیرہ روم کی بندرگاہ طرطوس کے قریب پیش آیا، جہاں شدید لڑائی کے دوران مزید 10 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ طرطوس اسد کے اقلیتی علوی فرقے کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ تازہ حملہ اس وقت کیا گیا جب سکیورٹی فورسز دارالحکومت دمشق کے قریب واقع صیدنایا جیل میں ایک سابق افسر کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ صرف دو ہفتے قبل بشار الاسد کی حکومت ہیئت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں باغی قوتوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے گروپ، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) نے کہا ہے کہ جھڑپوں میں 3 مسلح افراد بھی ہلاک ہوئے، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ بعد میں سیکیورٹی فورسز نے کمک طلب کی۔
**حمص میں کرفیو اور مظاہرے**
شامی حکام نے حمص کے مرکزی شہر میں فساد کے خدشات کے پیش نظر رات بھر کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ یہ کرفیو اس وقت لگایا گیا جب ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر ایک علوی مزار پر حملہ دکھایا گیا۔ وزارت داخلہ نے اس ویڈیو کی پرانی نوعیت کی وضاحت کی ہے اور کہا کہ یہ نومبر کے اواخر میں حلب میں باغیوں کے حملے کی تصاویر ہیں۔
ایس او ایچ آر کے مطابق حمص میں مظاہرین میں سے ایک شہری ہلاک اور 5 زخمی ہوئے۔ طرطوس، لتاکیا شہروں اور بشار الاسد کے آبائی شہر قردہہ سمیت مختلف علاقوں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں۔
علوی کمیونٹی، جس کا تعلق سابق حکومت کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ سے ہے، انتقام کے خوف میں مبتلا ہے۔ یہ کمیونٹی بشار الاسد کے دور میں شام میں تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔ بعض علوی مذہبی رہنما عام معافی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن اس کمیونٹی کے ارکان کی جانب سے کیے گئے مبینہ جنگی جرائم کی وجہ سے اس کی امیدیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://i.imghippo.com/files/gwIs9670QKk.jpg