اتنی قربانیوں کا حاصل وصول کیا ہوا- لازم ہے کہ نظریہ ہمیں
پاکستان اور تحریک پاکستان کے محرکات کا پھر سے تجزیہ کیا جاۓ۔کہ ایک لمبی جدوجہد اور قربانی کے سلسلہ میں کہاں کہاں خلا رہے جو بھرے نا جا سکے۔ ایک سال کے بعد ہی سب سے بڑا لیڈر منظم طریقہ کار سے منظر سے ہٹایا گیا- اور اس کے بعد آنیوالے تمام سیاسی رہنما یکے بعد دیگرے نا صرف قتل کر دیے بلکہ قاتلوں کی طرف اٹھنے والی آوازوں کو بھی دبا دیا گیا- ۱۹۷۱ میں ملک کی تقسیم بھی ہوش میں لانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی۔بلکہ المیہ کےاسباب کو بھی مفادات کی زنبیل میں ڈال دیا گیا-نظریات -دلائل -بنیادی حقوق آئین و قانون سب ملکی سلامتی کے نام پر معلق ہو گئے۔ ترقی کا محور صرف دفاع قرار پایا اور طریقہ کار بیرونی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ میں شراکت داری۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے حالات اور معاملات میں کیا بنیادی فرق تھا اور جو تسلسل سے قائم رکھا گیا کہ انڈیا تو آزادی کی راہ پر چل پڑا جبکہ ہم بنی اسرائیل کی طراح ایک دائرے میں قید ہوگئے کہ ہر کوشش ناکامی پر ختم ہوتی ہے۔ بلکہ ہر کوشش کرنے والے ایسا نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے کہ اگلے کئی برس تک کسی کو ملکی معاملات پر لب کشائی کی ہمت نا ہو- کون کہاں کس طرح ۲۵ کروڑ کے ملک کو کس طرف دھکیل رہا ہے سب “کمرے میں ہاتھی “ کے مصداق عمل پیرا ہیں۔ اب تو یقین سا ہو چکا کہ کچھ لوگوں کا وہ نظریہ کہ تقسیم ہند تو انگریز سامراج کا وہ منصوبہ تھا کہ اتنے بڑے علاقے کو ہینڈل کرنا مشکل تھا اس لیے اس کو کچھ ملکوں کے نام پر تقسیم کر دو۔ الجھن ہی الجھن ہے سوالات ہی سوالات - جواب ندارد- ترقی کا پہلا زینہ کہ تعلیم و تحقیق سے مسائل کا حل تلاش کرو تو المیہ یہ ہے کہ یہاں بھی ان کو مسلط کر دیا گیا ہے جو پڑھے لکھے نہیں اور کوشش بھی نہیں کرتے۔ کیا ایک اور تحریک کی ضرورت ہے - مگر کیا پاکستان کے لیے یا غاصب پوشیدہ طاغوتوں کے خلاف- دل ڈرتا ہے کہ گھر تو آخر اپنا ہے۔
پاکستان اور تحریک پاکستان کے محرکات کا پھر سے تجزیہ کیا جاۓ۔کہ ایک لمبی جدوجہد اور قربانی کے سلسلہ میں کہاں کہاں خلا رہے جو بھرے نا جا سکے۔ ایک سال کے بعد ہی سب سے بڑا لیڈر منظم طریقہ کار سے منظر سے ہٹایا گیا- اور اس کے بعد آنیوالے تمام سیاسی رہنما یکے بعد دیگرے نا صرف قتل کر دیے بلکہ قاتلوں کی طرف اٹھنے والی آوازوں کو بھی دبا دیا گیا- ۱۹۷۱ میں ملک کی تقسیم بھی ہوش میں لانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی۔بلکہ المیہ کےاسباب کو بھی مفادات کی زنبیل میں ڈال دیا گیا-نظریات -دلائل -بنیادی حقوق آئین و قانون سب ملکی سلامتی کے نام پر معلق ہو گئے۔ ترقی کا محور صرف دفاع قرار پایا اور طریقہ کار بیرونی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ میں شراکت داری۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے حالات اور معاملات میں کیا بنیادی فرق تھا اور جو تسلسل سے قائم رکھا گیا کہ انڈیا تو آزادی کی راہ پر چل پڑا جبکہ ہم بنی اسرائیل کی طراح ایک دائرے میں قید ہوگئے کہ ہر کوشش ناکامی پر ختم ہوتی ہے۔ بلکہ ہر کوشش کرنے والے ایسا نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے کہ اگلے کئی برس تک کسی کو ملکی معاملات پر لب کشائی کی ہمت نا ہو- کون کہاں کس طرح ۲۵ کروڑ کے ملک کو کس طرف دھکیل رہا ہے سب “کمرے میں ہاتھی “ کے مصداق عمل پیرا ہیں۔ اب تو یقین سا ہو چکا کہ کچھ لوگوں کا وہ نظریہ کہ تقسیم ہند تو انگریز سامراج کا وہ منصوبہ تھا کہ اتنے بڑے علاقے کو ہینڈل کرنا مشکل تھا اس لیے اس کو کچھ ملکوں کے نام پر تقسیم کر دو۔ الجھن ہی الجھن ہے سوالات ہی سوالات - جواب ندارد- ترقی کا پہلا زینہ کہ تعلیم و تحقیق سے مسائل کا حل تلاش کرو تو المیہ یہ ہے کہ یہاں بھی ان کو مسلط کر دیا گیا ہے جو پڑھے لکھے نہیں اور کوشش بھی نہیں کرتے۔ کیا ایک اور تحریک کی ضرورت ہے - مگر کیا پاکستان کے لیے یا غاصب پوشیدہ طاغوتوں کے خلاف- دل ڈرتا ہے کہ گھر تو آخر اپنا ہے۔
Last edited by a moderator: